کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 169
اقامت کے کلمات: کتبِ حدیث میں اقامت کے کلمات دو طرح سے وارد ہوئے ہیں،اکہری اقامت اور دوہری اقامت۔اکہری اقامت اس طرح ہے: {اَللّٰہُ اَکْبَرْ،اَللّٰہُ اَکْبَرْ،اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ،قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ،قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ،اَللّٰہُ اَکْبَرْ،اَللّٰہُ اَکْبَرْ،لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ} یعنی صرف ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ اور ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ‘‘ کو دو مرتبہ اور باقی تمام کلمات کو صرف ایک ایک مرتبہ کہا جائے۔ 1۔ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابی داود اور مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: {أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَّشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ}[1] ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔‘‘ جب کہ سنن ترمذی و نسائی اور ابن ماجہ میں بھی اکہری اقامت کا حکم دیا جانا مذکور ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں حکم دینے والے تھے،کیونکہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اذان ہی نہیں کہی،سوائے اس کے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے اور بعض روایات کی رو سے شام میں صرف ایک ہی مرتبہ اذان کہی تھی اور اس کے بعد پھر کبھی نہیں کہی۔ان کا یہ واقعہ معروف ہے۔[2] 2۔ اکہری اقامت کی دوسری دلیل سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،دارمی اور مسندِ احمد میں مذکور حضرت عبداﷲ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے،جس میں اقامت اکہری ہی ثابت ہے اور صرف اتنے کلمات ہی ہیں،جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔[3]
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث (605،606) مختصر صحیح مسلم للمنذري،رقم الحدیث (192) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (480) [2] نیل الأوطار (1/ 2/ 40-41) [3] سنن الترمذي مع التحفۃ (1/ 580-586) مشکاۃ المصابیح (1/ 205،206) الإرواء (265،264) صحیح ابن خزیمۃ،رقم الحدیث (374) سنن الدارقطني،رقم الحدیث (14) سنن الدارمي (1/ 270) باب الأذان مثنی مثنی والإقامۃ مرۃ،صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (469)