کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 168
ممالک میں معمول ہے،مگر ہمارے یہاں جلدی کی جاتی ہے اور احناف و شافعیہ کے نزدیک صرف تین آیتوں کی تلاوت کے برابر وقفہ ہونا چاہیے۔[1] جب کہ احادیث و آثار اس سے زیادہ وقفے پر دال ہیں۔ مغرب کی اذان و اقامت کے مابین والے وقفے کا ثبوت ان احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملتا ہے،جن میں مغرب کی اذان و اقامت کے مابین دو رکعتیں پڑھنے کا ثبوت ہے اور وہ احادیث و آثار صحیح بھی ہیں،جن کی تفصیل اس موضوع کے ضمن میں آگے دی جائے گی۔ان شاء اﷲ اقامت کون کہے؟ اب رہی یہ بات کہ اقامت کون کہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے ممالک میں بعض لوگ اذان کہتے ہوئے شرماتے ہیں،مگر اقامت بلا اجازت ہی کہنا شروع کر دیتے ہیں،اگرچہ عرب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔جبکہ صحیح تر اور اولیٰ یہ ہے کہ اقامت وہی شخص کہے،جس نے اذان کہی ہو،اس بات کی تائید سنن ابو داود،ترمذی و ابن ماجہ میں مذکور ایک روایت سے بھی ہوتی ہے،لیکن وہ روایت ضعیف ہے،یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اہلِ علم کی آرا مختلف ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم کا اس پر عمل ہے: ’’مَنْ أَذَّنَ فَھُوَ یُقِیْمُ‘‘ ’’جو اذان کہے وہی اقامت بھی کہے۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مجھے محبوب یہ ہے کہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔‘‘ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔امام مالک و ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس امر میں وسعت ہے کہ جو بھی اقامت کہہ لے،صحیح ہے۔یہ تو بات ہے اوّلیت و افضلیت کی۔رہا معاملہ جواز کا تو علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کتاب الاعتبار حازمی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’اذان ایک کہے اور اقامت کوئی دوسرا کہہ لے تو اس کے جائز ہونے پر اہلِ علم کا اتفاق ہے۔‘‘[2]
[1] الفقہ علی المذاھب الأربعۃ (1/ 325) [2] تفصیل کے لیے دیکھیں: تحفۃ الأحوذي علی سنن الترمذي (1/ 597،598)