کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 162
اذان سے قبل صلوۃ،تسمیہ،تعوذ بلند آواز سے پڑھنا غیر مشروع،ناجائز اور بدعت ہے ’’ماہنامہ ’’انوار الصوفیہ‘‘ قصور،ترجمان آستانہ عالیہ علی پور شریف،مؤسس اعلیٰ حضرت امیرِ ملت مجدد العصر جناب قبلۂ عالم پیر جماعت علی شاہ صاحب،اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ،امامِ اہل سنت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی،جامعہ نعیمیہ لاہور،مرکزِ اہل سنت والجماعت دارالعلوم حزب الاحناف داتا گنج بخش روڈ لاہور کے فتاویٰ۔‘‘ سوال: ’’آج کل ہم اہل سنت والجماعت کی تمام مساجد میں بآواز بلند اذان سے قبل صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں اور بعض مؤذنین صلوۃ و سلام سے بھی پہلے اعوذ اور بسم اﷲ اور آیت﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ﴾یا کوئی اور آیت پڑھتے ہیں،پھر صلوۃ و سلام اور پھر اذان پڑھتے ہیں،کیا یہ جائز ہے؟ جواب: ’’اذان سے قبل اعوذ باللّٰه پڑھنا مشروع نہیں ہے۔اس کا حکم قرآن شریف کے ساتھ مخصوص ہے،یعنی جب قرآن شریف پڑھنا چاہو تو اعوذ باﷲ پڑھ لو،اس کے سوا کسی چیز سے پہلے پڑھنے کا حکم نہیں۔بسم اﷲ الرحمن الرحیم ہر نیک کام کے اول پڑھنا باعثِ برکت ہے،لیکن اُونچی آواز سے اور مزید برآں لاؤڈ سپیکر میں پڑھنا فضول ہے۔آہستہ سے پڑھنا کافی ہے۔قرونِ اولیٰ میں بلکہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے کہیں بھی اذان کو اونچی آواز سے بسم اﷲ پڑھ کر شروع کرنا معہود نہیں ہے،ایسے ہی اونچی آواز سے بالالتزام صلوۃ و سلام اذان سے قبل پڑھنا اور اس کو عادت بنانا مشروع نہیں ہے۔دراصل یہ زوائد وہابیوں،دیوبندیوں کی ضد سے یا نعت خوان قسم کے موذنین نے پیدا کیے ہیں،پہلے زمانوں میں سب قارئین جانتے ہیں کہ اذان اس زوائد سے خالی ہوتی تھی۔اگر ہمارے علما عوام کی تائید میں کہ اب وہ اس راستے پر چل پڑے ہیں،غور و فکر