کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 161
سپیکری درود و سلام وغیرہ: اذان کے ضروری مسائل تو قدرے اختصار سے آپ کے سامنے آگئے ہیں۔اقامت کے مسائل سے پہلے ہم یہاں ایک اہم بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ مسائلِ اذان کی تفصیل میں آپ نے کتنی زیادہ احادیث پڑھی ہیں،مگر کیا کسی ایک میں بھی یہ ذکر آیا ہے کہ اذان سے متصل پہلے صلوۃ و سلام بھی خوب راگ لگا کر پڑھا جائے؟ ہرگز نہیں۔صلوۃ و سلام اور درود شریف کے فضائل و برکات اپنی جگہ،مگر عین اذان سے پہلے اسی طرح انھیں پڑھنا گویا یہ اذان کا ہی کوئی حصہ ہیں،یہ قطعاً ناجائز اور صریحاً بدعت ہے۔یہ تقسیمِ پاک و ہند کے بعد ایجاد ہونے والی بدعت ہے اور عمر رسیدہ لوگ اس کے گواہ ہیں۔خاص طور پر جب سے مساجد میں لاؤڈ سپیکر عام ہوئے ہیں،یہ سلسلے بھی زوروں پر آگیا ہے۔اس اعتبار سے اسے سپیکری درود و سلام بھی کہا جاتا ہے۔ حنبلی،شافعی اور مالکی حتیٰ کہ خود احناف کا دیوبندی مکتبِ فکر بھی اس کا قائل و فاعل نہیں،صرف بریلوی مکتبِ فکر کے لوگ اس ایجادِ نو کو اپنائے رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بھی کتنے ہی علما اس کو بدعت قرار دے چکے ہیں۔صرف کم پڑھے لکھے لوگوں کی بھِیڑ ہے،جو ماننے کے لیے تیار نہیں تو آئیے آپ کو صرف احناف کے بریلوی مکتبِ فکر کے بعض علما کی تصریحات بھی سنا دیں۔ مرکز سوادِ اعظم اہلِ سنت والجماعت آستانہ عالیہ چشتیہ صابریہ دار الحق ٹاؤں شپ سکیم لاہور کی طرف سے آٹھ صفحاتی پمفلٹ شائع ہوا تھا،جس کا عنوان ہے:’’اذان سے قبل صلوۃ(درود شریف)،تسمیہ(بلند آواز بسم اﷲ پڑھنا)اور تعوذ(اعوذ باﷲ)بلند آواز سے پڑھنا غیر مشروع،ناجائز اور بدعت ہے۔یہ تو عنوان ہے۔اسی پمفلٹ میں بریلوی مکتبِ فکر کے علما اور پیر حضرات کے فتاویٰ ہیں،جن میں آستانہ عالیہ علی پور کے پیر جماعت علی شاہ صاحب،مفتی محمد حسین نعیمی،مرکز اہلِ سنت والجماعت دارالعلوم حزب الاحناف لاہور اور اس مکتبِ فکر کے بانی احمد رضا خاں بریلوی کے فتاویٰ درج ہیں،جن کا خلاصہ مذکورہ عنوان ہی میں آگیا ہے۔لہٰذا تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔مذکورہ پمفلٹ کی عبارت یہ ہے: