کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 158
مصنف عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ اور سنن بیہقی میں اس روایت کی ایک شاہد ہے،جس میں حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں: ’’أَمَّتْنَا أُمُّ سَلَمَۃَ فِيْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ،قَامَتْ بَیْنَنَا‘‘[1] ’’ہمیں اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نمازِ عصر کی جماعت کرائی اور ہمارے وسط میں کھڑی ہوئیں۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ میں قتادہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی والدہ خیرہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: ’’إِنَّھَا رَأَتْ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم تَؤُمُّ النِّسَائَ،وَتَقُوْمُ مَعَھُنَّ فِيْ صَفِّھِنَّ‘‘[2] ’’انھوں نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو عورتوں کی جماعت کراتے دیکھا اور وہ عورتوں کی صف کے اندر کھڑی ہوئیں۔‘‘ یہ تمام آثار قابلِ عمل ہیں،خصوصاً جبکہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: {إِنَّمَا النِّسَائُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ}’’عورتیں مردوں کی ہم جنس ہیں۔‘‘ بھی ان کا مؤید ہے۔ان آثار سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ عورت کے اذان کہنے کے سلسلے میں امام احمد،شافعی اور اسحاق رحمہ اللہ کا مسلک ہی راجح ہے،جبکہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے تو وجوبِ اذان کے دلائل ذکر کر کے آخر میں یہ بھی لکھا ہے: ’’بظاہر عورتیں بھی مَردوں کی طرح ہی ہیں،کیونکہ وہ مَردوں کی ہم جنس ہیں اور جو حکم مَردوں کے لیے ہے وہی عورتوں کے لیے بھی اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے،جو ایسی ہو کہ عورتوں پر اذان کے عدمِ وجوب کا ثبوت بن سکے اور جو دلیل وارد ہے،اس کی سند میں دو راوی متروک ہیں،جن سے حجت جائز نہیں۔بہر حال اگر کوئی ایسی دلیل مل جائے،جس کی بنا پر عورتوں کو مَردوں کے حکم سے الگ کیا جا سکے،تب تو ایسا ہی ہے،ورنہ پھر وہ مَردوں کی طرح ہی اس حکم میں شامل ہیں۔‘‘[3]
[1] تمام المنۃ (ص: 154) [2] تمام المنۃ (ص: 154) [3] السیل الجرار (1/ 96،197) تمام المنۃ (ص: 144)