کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 156
اذان پر اجرت لینا حرام ہے،لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔[1] امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں کہا ہے کہ مجھے محبوب یہ ہے کہ موذنین لوجہ اﷲ اذان دیں۔[2] 8۔ موذن مرد ہو یا سمجھ دار لڑکا،عورت کا اذان کہنا بعض اہلِ علم نے مکروہ قرار دیا ہے۔امام احمد،شافعی اور اسحاق رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر صرف عورتوں میں کوئی عورت اذان کہہ لے تو کوئی حرج نہیں۔[3] سنن بیہقی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی حدیث ہے: ’’لَیْسَ عَلَی النِّسَائِ أَذَانٌ وَلَا إِقَامَۃٌ‘‘ ’’عورتوں پر نہ اذان ہے اور نہ ہی اقامت۔‘‘ اس کی تائید حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی مرفوعاً مگر ضعیف روایت سے بھی ہوتی ہے،جسے بیہقی و ابن عدی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔[4] حضرت انس،حسن بصری،ابن سیرین،نخعی،ثوری،مالک،ابو ثور رحمہم اللہ اور احناف کا یہی مسلک ہے۔[5] یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ فقہ السنۃ میں سنن بیہقی سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جو اثر بیان کیا گیا ہے،اس کی سند کو صحیح لکھا ہے۔یہی بات ’’نیل الأوطار‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھی تھی اور ان سے بھی پہلے ’’تلخیص الحبیر‘‘(1/211)میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے بھی ہوا،جبکہ دورِ حاضر کے معروف محدث علامہ البانی نے ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘(2/270)اور ’’تمام المنۃ‘‘(ص:153)میں اس قولِ تصحیح کو خطا فاحش قرار دیا ہے۔اس تصحیح کا سبب اس اثر کی سند کے ایک راوی عبداﷲ ہیں،جو نافع سے بیان کرتے ہیں اور العمری(عبداﷲ بن عمر۔العمری المکبَّر)ہیں نہ کہ عبیداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما،تصحیح کرنے والوں کا یہی وہم اس اثر کی تصحیح کا باعث ہوا۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ اثر متن کے اعتبار سے مصنف ابن ابی شیبہ(1/223)میں مروی ایک اثر کے مخالف بھی ہے،جس کی سند بھی جید ہے۔اس میں وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ
[1] نیل الأوطار (1/ 2/ 59) تحفۃ الأحوذي (1/ 619) [2] نیل الأوطار (1/ 2/ 59) [3] فقہ السنۃ (1/ 120) [4] نیل الأوطار (1/ 2/ 32) [5] فقہ السنۃ (1/ 120)