کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 151
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ والی)اس(دوسری)روایت میں دیگر روایات میں وارد شدہ اطلاق کی تقیید ہے۔آگے ابن رسلان سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے کہا: ’’اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے اور ابن رسلان نے کہا کہ تثویب کی مشروعیت فجر کی اذان اول میں ہے،کیوں کہ وہی تو سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے ہے،جبکہ دوسری اذان تو فجر کا وقت ہونے کی اطلاع اور اس کی طرف دعوت کی خاطر ہوتی ہے۔‘‘ سنن کبریٰ نسائی میں سفیان عن ابی جعفر عن ابی سلیمان کے طریق سے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: {کُنْتُ أُؤَذِّنُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَکُنْتُ أَقُوْلُ فِيْ أَذَانِ الْفَجْرِ الْأَوَّلِ}[1] ’’میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن تھا،پس میں فجر کی پہلی اذان میں یہ کہا کرتا تھا:((حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ،حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}۔‘‘ اس روایت کی سند کو علامہ ابن حزم نے صحیح قرار دیا ہے۔ ایسے ہی سنن کبریٰ بیہقی میں بھی ہے،جس میں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صبح کی پہلی اذان میں تثویب کہا کرتے تھے(جیسا کہ حدیث گزری ہے)۔ آگے علامہ صنعانی فرماتے ہیں: ’’ان احادیث کی بنا پر((اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}کے الفاظ نماز کے لیے بلانے اور اس کا وقت ہوجانے کی خبر دینے والی(دوسری)اذان کے لیے مشروع نہیں ہیں،بلکہ یہ الفاظ تو سوئے ہوئے کو جگانے کے لیے دی جانے والی اذان(اول)میں کہنے مشروع ہیں۔‘‘± تثویب کے اذانِ اول میں ہونے کی بات صرف ابن رسلان،امیر صنعانی اور علامہ البانی ہی نے نہیں کہی،بلکہ امام ابو حنیفہ اور ان کے دونوں ارشد تلامذہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ سے بھی یہی قول ملتا ہے۔چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے شرح المعانی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث،جو تثویب کے اذانِ اول میں ہونے کے بارے میں صریح ہیں،ان کا ذکر کرنے
[1] صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث (628)