کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 150
سے درخواست کرتے ہیں کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اذان کا طریقہ سکھلائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اذان سکھلائی،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {فَإِنْ کَانَ صَلَاۃُ الصُّبْہِ قُلْتَ:اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}[1] ’’اگر صبح کی نماز ہو تو اذان میں یہ کہو:((اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}۔‘‘ اب اس حدیث میں تو مطلق صبح کی نماز کہا گیا ہے،جبکہ خود حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری حدیث مروی ہے،جو سنن ابو داود،نسائی،دارقطنی،الاوسط،مصنف عبدالرزاق،معانی الآثار طحاوی اور دیگر کتب میں مروی ہے،جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: {وَإِذَا أَذَّنْتَ بِالْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ فَقُلْ:اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}[2] ’’جب تم صبح کی پہلی اذان کہو تو یہ بھی کہو:((اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}۔‘‘ سنن نسائی کے الفاظ ہیں: {اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فِي الْآذَانِ الْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ}[3] ان الفاظ کا معنیٰ بھی وہی ہے،جو سابقہ الفاظ کا ہے۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ والی اس دوسری روایت اور ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت سے معلوم ہوا کہ یہ تثویب دراصل دوسری اذان میں نہیں،بلکہ پہلی میں ہونی چاہیے اور جس روایت میں مطلق صبح کی اذان میں ہونا مذکور ہے،اس کے اطلاق کی ان احادیث سے تقیید ہوجاتی ہے،کیونکہ وہ اطلاق صبح کی دونوں اذانوں کو شامل ہے،جبکہ ان احادیث کی رو سے وہاں دوسری اذان مراد ہی نہیں ہے۔ بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے کہ(حضرت
[1] تمام المنۃ (ص: 147) الأوسط و تحقیقہ (3/ 21) [2] دیکھیں: سبل السلام (1/ 119) دار الفکر بیروت۔ [3] دیکھیں: تمام المنۃ،حوالہ بالا۔