کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 149
عام اور بلااختلاف معمول بہٖ ہے۔البتہ پہلی اذان پر عمل کم ہو رہا ہے،حالانکہ وہ بھی صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنت ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی ان دونوں اذانوں کے لیے الگ الگ مؤذن مقرر فرمائے ہوئے تھے۔جیسا کہ صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت نافع،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں۔اس حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ دونوں موذنوں کے اذان کہنے میں زیادہ وقفہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایسے ہی صحیحین،سنن نسائی و بیہقی،مسندِ احمد،اور معانی الآثار طحاوی میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں بھی فجر کے دو الگ الگ موذنوں کا ذکر ہے،اسی طرح انیسہ،انس،سہل بن سعد اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم کی مرویات بھی فجر کی دو اذانوں کے لیے الگ الگ دو موذنوں کا پتا دیتی ہیں۔[1] بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘(نماز نیند سے بہتر ہے)کے الفاظ پر مشتمل ’’تثویب‘‘ کا تعلق پہلی اذان سے ہے،نہ کہ دوسری سے،جبکہ آج کل یہ مروّج دوسری میں ہی ہے اور ان کلمات کے دوسری اذان کی بجائے پہلی کے لیے ثابت ہونے کے دلائل میں سے کئی احادیث ہیں۔مثلاً سنن ترمذی میں تعلیقاً اور سنن بیہقی،مصنف عبدالرزاق،الاوسط،ابن المنذر اور معانی الآثار طحاوی میں موصولاً مروی ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: {کَانَ فِيْ الْآذَانِ الْأَوَّلِ بَعْدَ الْفَلَاحِ:اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ} ’’پہلی اذان میں((حَيَّ عَلَی الْفَلَاح}کے بعد دو مرتبہ((اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ}کہا جاتا تھا۔‘‘ جب کہ ’’الأوسط‘‘ میں تو حضرت نافع کے الفاظ ہیں کہ خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فجر کی پہلی اذان میں ’’حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ‘‘ اور ’’حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘ کے بعد ’’اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘ کہا کرتے تھے۔[2] اس تثویب کے اذانِ اول میں ہونے کے ایک دوسرے راوی حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ان سے اگرچہ ایک روایت میں مطلق صبح کی نماز کی اذان میں ان الفاظ کا کہنا بھی مروی ہے،جیسا کہ ابو داود اور مسند احمد کے حوالے سے فقہ السنۃ میں حدیث نقل کی گئی تھی،جس میں وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] دیکھیں: إرواء الغلیل (1/ 235۔239) [2] دیکھیں: تمام المنۃ،وقال: إسنادہ حسن،کما قال الحافظ (ص: 146،147) و الأوسط و تحقیقہ (3/ 22)