کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 137
’’لوگوں سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی،وہ امانت ہے اور ان کے دین میں سے جو چیز سب سے آخر تک رہے گی،وہ نماز ہے،کتنے ہی ایسے نمازی ہیں جنھیں اﷲ کے یہاں اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ اس حدیث اور دیگر احادیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے یہ بات اخذ کی ہے کہ نماز اسلام کے فرائض میں سے پہلی چیز ہے اور یہی سب سے آخر میں مفقود ہوگی،گویا یہی اسلام کا اول ہے اور یہی آخر ہے۔جب کسی چیز کا اول و آخر جاتا رہے تو وہ ساری ہی ختم ہوجاتی ہے۔[1] بالفاظ دیگر جب کسی کی نماز جاتی رہی تو اس کا دین ہی جاتا رہا،وہ واجب القتل ہے،اس اعتبار سے بھی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث قائلینِ قید کے بجائے،قائلینِ قتل ہی کی دلیل بنتی ہے۔[2] اور تارکینِ نماز کے قتل سے بعض دیگر مسائل بھی تعلق رکھتے ہیں،مثلاً یہ کہ ایک نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنے پر قتل کیا جائے یا دو نمازوں یا تین نمازوں کے ترک کرنے پر اسے قتل کیا جائے گا؟ نیز یہ کہ اسے سزاے موت دینے سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے،ہر نماز کے وقت اُسے نماز کی دعوت دی جائے اور اس کا قتل کفر اور ارتداد کی بنا پر ہوگا یا شرعی حد کا نفاذ اور اسے تلوار سے قتل کیا جائے یا کسی دوسرے طریقے سے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے کتاب الصلاۃ ابن قیم،مغنی ابن قدامہ،نیل الاوطار شوکانی اور دوسری شروحِ حدیث اور کتبِ فقہ دیکھی جا سکتی ہیں۔علامہ احمد بن حجر آلِ بوطامی چیف جسٹس حکومتِ قطر نے اپنی کتاب ’’ تطہیر المجتمعات من أرجاس الموبقات‘‘ میں لکھا ہے: ’’اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو آدمی تارکِ نماز اور وجوبِ نماز کا عقیدہ بھی نہ رکھتا ہو تو اسے کافر ہونے کی وجہ سے قتل کیا جائے اور اگر وجوبِ نماز کا عقیدہ رکھتا ہو،لیکن سستی و غفلت کی وجہ سے نماز نہ پڑھتا ہو تو اسے تین دن کے لیے توبہ کا موقع دیا جائے گا،اس عرصے میں اس پر نماز ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔اگر اس نے توبہ کر لی اور نماز شروع کر لی،تو ٹھیک ہے،ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔اس پر اجماع ہے۔‘‘
[1] الصلاۃ (ص: 43-43-من المجموعۃ للإمام أحمد) بتحقیق الشیخ محمد حامد الفقي،الصلاۃ اُردو ترجمۃ (ص: 62-65،طبع دار الافتاء) [2] دیکھیں: الصلاۃ للإمام أحمد (ص: 42-43 عربي،ص: 62-65 اُرود) و الصلاۃ لابن قیم (21-22)