کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 136
3۔ وہ دینِ اسلام کو ترک کر کے اور مسلمانوں کی جماعت سے نکل کر مرتد ہوجائے۔ اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ،جو قائلینِ قتل میں سے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ یہ سزاے قید والوں کی نہیں،بلکہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے،کیونکہ اس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تین شکلوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے،ان میں سے ایک ترکِ دین ہے اور نماز دین کا رکنِ اعظم ہے(لہٰذا ان کا نماز ترک کرنا ترکِ دین ہوا)خصوصاً جبکہ ہم یہ کہیں کہ تارکِ نماز کافر ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے دین کے ستون کو بالکلیہ ہی ترک کر دیا اور اگر اسے کافر نہ کہیں تو بھی اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے دین کے ستون کو ڈھا دیا(تو ایسے شخص کی سزا بھی قتل ہوگی)۔[1] پھر آگے انھوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک طویل اقتباس نقل کیا ہے،جس میں امام موصوف رحمہ اللہ نے متعدد احادیث و آثارِ صحابہ کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ نماز کے بغیر کسی کا اسلام سے کوئی ناتا نہیں رہتا۔کیوںکہ نماز دین کا ستون ہے اور اگر ستون ہی گِر جائے تو پھر لکڑی،کاٹھ اور مٹی گارے سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا،ہاں اگر ستون قائم ہو تو پھر ان اشیا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔اور یہی معاملہ اسلام میں نماز کا ہے۔نماز اسلام کے فرائض میں سے پہلی چیز ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے اسی کا حساب لیا جائے گا۔اس مفہوم کی احادیث و آثار ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں،انھیں دُہرانے کی ضرورت نہیں۔البتہ ایک بات جو امام مالک رحمہ اللہ نے اس جگہ فرمائی ہے،وہ یہ کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’دین میں سے پہلے چیز جو تم کھودو گے وہ امانت ہے اور آخری چیز جو تم سے رخصت ہوجائے گی وہ نماز ہے۔‘‘ یہ ارشاد شعب الایمان بیہقی میں قدرے مختلف الفاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔[2] صحیح الجامع الصغیر میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور اسے حکیم کی طرف منسوب کیا گیا ہے،اس کے راوی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں،وہاں اس حدیث کے الفاظ ہیں: {أَوَّلُ مَا یُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْأَمَانَۃُ،وَآخِرُ مَا یَبْقٰی مِنْ دِیْنِھِمُ الصَّلَاۃُ،وُرُبَّ مُصَلٍّ لَا خَلَاقَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالَیٰ}[3]
[1] الصلاۃ (ص: 20) [2] تحقیق کتاب الصلاۃ للإمام أحمد (ص: 43) من المجموعۃ [3] صحیح الجامع (1/ 2/ 353)