کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 127
یہ نام تب صادق آئیں گے اگر کسی سے ان افعال کا صدور اکثر حالات میں ہوتا ہی رہے۔اسی طرح زانی،شرابی،چور اور ڈاکو کو مومن کا نام نہیں دیا جا سکتا،اگرچہ وہ کچھ ایمان رکھتا ہے اور نہ اُسے کافر ہی کہا جا سکتا ہے،اگرچہ اس نے کفریہ افعال کا ارتکاب کیا ہے۔ اس ساری تفصیل سے مقصود یہ بتانا ہے کہ تارکِ نماز سے ایمان کا سلب کیا جانا دیگر کبائر کا ارتکاب کرنے والوں سے ایمان سلب کیے جانے سے بھی اولیٰ ہے اور تارکِ نماز سے اسلام کا سلب کیا جانا دوسرے لوگوں کو ہاتھ اور زبان سے تکلیف دینے والوں سے اسلام سلب کیے جانے سے اولیٰ ہے۔تارکِ نماز کو مسلمان اور مومن کا نام نہیں دیا جا سکتا،اگرچہ اس کے پاس اسلام اور ایمان کا کچھ حصہ بھی ہے۔اب بات رہ گئی کہ کیا اس کے پاس جو ایمان و اسلام کا حصہ ہے،وہ اسے جہنم میں ہمیشگی سے بچا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر متروک عمل دوسرے اعمال کے صحیح ہونے کے لیے شرط نہیں ہے تو وہ فائدہ دے گا اور اگر متروک عمل دیگر اعمال کی قبولیت کے لیے شرط ہے تو پھر وہ اُسے فائدہ نہیں دے گا۔یہی وجہ ہے نبوت و رسالت کا انکار کرنے والوں کو محض اقرارِ توحید نے نفع نہ دیا اور جس نے جان بوجھ کر بلا وضو نماز پڑھی،اسے نماز نے فائدہ نہ پہنچایا۔غرض کہ ایمان کے بعض شعبے دوسرے شعبوں کے ساتھ مشروط کا تعلق رکھتے ہیں اور بعض ایسے نہیں ہیں۔ اب رہا معاملہ نماز کا کہ کیا یہ ایمان کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے یا نہیں؟ اس سارے مسئلے کا راز بھی یہی ہے۔جو دلائلِ ذکر کیے گئے ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کے ترکِ نماز کی وجہ سے اس کا دوسرا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا،کیونکہ یہ نماز اس کے دیوان کی چابی اور اس کے فائدے یا نفع کا راس المال ہے۔جب رأس المال ہی نہ ہو تو فائدہ یا منافع کہاں سے آئے گا؟ جب وہ نماز کے معاملے میں خسارے میں رہا تو پھر ہر طرف سے خسارہ ہی خسارہ ہے،جو شخص پکا تارکِ نماز ہے۔اس کے تمام اعمال اکارت جاتے ہیں۔جو کبھی کبھی چھوڑتا ہے،تو اس کے اس دن کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ الغرض کبھی کبھی ترکِ نماز کا ارتکاب کرنے والے کو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کفر کیا،وہ کافر نہیں ہوا۔لیکن جو شخص نہ صرف یہ کہ ہمیشہ کا تارکِ نماز ہو،بلکہ اس کے ساتھ ہی اسے ترکِ نماز پر اصرار بھی ہو تو اس کے کفر میں کیا شک رہ جاتا ہے؟ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: