کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 126
برعکس دوسری قسم کے)جیسا کہ سورت یوسف کی آیت(106)میں اﷲ نے ان کے لیے شرک کے باوجود ایمان ثابت کیا ہے اور سورۃ الحجرات کی آیت(14)میں ان سے ایمان کی نفی کے باوجود ان کے لیے اسلام اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ثابت ہے۔ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم،سنن ترمذی اور نسائی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ}’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔‘‘ پھر وہ نشانیاں بتائیں: 1۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ 2۔ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ 3۔ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ جبکہ صحیح بخاری مسلم،سنن ابو داود،ترمذی اور نسائی کی ایک دوسری حدیث میں چار علامتیں بتائیں: 4۔ جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔ یہ چاروں ہی افعال نفاق کی علامتیں ہیں،لیکن یہ عملی نفاق ہے،جو اعتقادی نفاق سے کمتر درجے کا ہے،جبکہ اعتقادی نفاق تو وہ ہے جسے اﷲ نے سورۃ النساء میں فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾[النساء:145] ’’منافقین جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ہوں گے۔‘‘ عملی نفاق والے شخص میں ایمان و نفاق دونوں جمع بھی ہو سکتے ہیں،ایسے ہی ریاکاری کو مسندِ احمد میں شرکِ اصغر کہا گیا ہے۔[1] اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ شرک و توحید بھی ایک شخص میں یکجا ہوسکتے ہیں،ایسے ہی وہ شخص بھی جس نے خود ساختہ قانون سے فیصلہ کیا یا بیوی سے لواطت کی وغیرہ وغیرہ،ان امور میں کفر اور اسلام جمع ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اگر کسی سے کوئی کفریہ فعل صادر ہوجائے تو اس پر مطلق کافر کا لفظ صادق نہیں آتا۔ایسے ہی کسی حرام کا ارتکاب کرنے والے کو مطلق فاسق نہیں کہا جائے گا،البتہ
[1] صحیح الجامع (1/ 2/ 45)