کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 112
’’اور نماز قائم کرو اور زکات دو اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو،تاکہ تم رحم کیے جاؤ۔‘‘ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے حصولِ رحمت کو ان امور کی بجا آوری کے ساتھ معلق کر دیا ہے اور اگر تارکِ نماز موجب کفر اور دخولِ جہنم کا سبب نہیں تو پھر ان کو نماز پڑھے بغیر بھی مرحوم ہونا چاہیے تھا،حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں ان افعال کی بجا آوری کے بعد رحمت کے امیدوار بنایا ہے۔ 9۔ اس سلسلے میں نواں مقام سورۃ القیامہ ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلّٰی وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی﴾[القیامۃ:31-32] ’’نہ اس نے تصدیق کی،نہ نماز پڑھی بلکہ تکذیب کی اور پیٹھ پھیری۔‘‘ جب اسلام تصدیقِ خبر اور اطاعتِ امر کا نام ہے تو اﷲ نے اس کی دو ضدیں بھی بتائی ہیں اور وہ ہیں عدمِ تصدیق اور عدمِ نماز،اور تصدیق کے مقابلے میں تکذیب کو اور نماز کے مقابلے میں پیٹھ پھیرنے کو رکھا ہے۔پس جس طرح جھٹلانے یا تکذیب کرنے والا کافر ہے،ایسے ہی تارکِ نماز بھی ہے اور جس طرح تکذیب سے اسلام زائل ہوجاتا ہے،ایسے ہی نماز سے پیٹھ پھیرنے سے بھی اسلام زائل ہوجاتا ہے۔ 10۔ دسواں مقام سورۃ السجدہ ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ﴾[السجدۃ:15] ’’ہماری باتوں کو وہی مانتے ہیں،جنھیں جب سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔‘‘ یہاں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں سے ایمان کی نفی کی ہے،جنھیں اﷲ کی آیات سے سمجھایا جائے تو حمدِ باری تعالیٰ بیان کرتے ہوئے سجدہ ریز نہیں ہو۔اﷲ کی آیات کے ساتھ تذکیر و نصیحت میں سب سے عمدہ اور اعلیٰ تذکیر نماز کی آیتوں سے تذکیر ہے،جسے ان آیات کے ساتھ سمجھایا گیا،مگر وہ نہ سمجھا اور نہ اس نے نماز ہی پڑھی تو گویا وہ ان پر ایمان ہی نہیں لایا،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اہلِ سجود ہیں اور جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ سوائے سورۂ بقرہ آیت(43)اور دوسری آیات کے الفاظ:﴿وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ﴾’’اور نماز قائم کرو۔‘‘ ان پر ایمان ہی نہیں لایا۔یوں اس آیت سے اس کے کفر پر استدلال کیا گیا ہے۔[1]
[1] دیکھیں: کتاب الصلاۃ لابن القیم (ص: 37،45)