کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 110
اہلِ جہنم کی پیپ بہتی ہے۔ ان آیات سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اﷲ نے یہ جگہ نماز کو ضائع کرنے اور خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لیے بنائی ہے۔اگر تارکِ نماز گناہگار مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تو جہنم کے کسی اوپر کے طبقے میں ہوتا نہ کہ اس گہری کھائی میں،جب کہ یہ گہری کھائیاں یا وادیاں اہل اسلام کا نہیں بلکہ کفار کا ٹھکانا ہیں۔یہیں ایک دوسری دلیل بھی موجود ہے اور وہ یوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب وہ غي کے انجام سے دو چار ہوں گے،سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے توبہ کی،ایمان لائے اور اچھے عمل کیے۔ ان الفاظ سے بھی بے نماز کے کفر کا پتا چلتا ہے،کیونکہ وہ مومن مسلمان ہی رہتا تو اس کی توبہ کے ساتھ ایمان لانے کی شرط نہ ہوتی،جب کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں توبہ کے ساتھ ایمان لانے کا بھی ذکر کیا،جو اس کے کفر یعنی اہلِ ایمان میں سے نہ ہونے کی دلیل ہے۔ 6۔ ایک چھٹے مقام سے بھی تارکِ نماز کے کفر پر استدلال کیاجاتا ہے اور وہ ہے سورۃ المنافقون کی آیت(9)جو ترجمہ و مختصر تفسیر سمیت عدمِ پابندی پر وعید کے ضمن میں گزر چکی ہے،جس میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تمھیں تمھارے مال و اولاد اﷲ کے ذکر(نمازِ پنج گانہ)سے غافل نہ کر دیں اور جو کوئی غفلت کرے گا تو ایسے لوگ ہی(قیامت کے دن)نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ اس آیت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آدمی کے لیے مطلق نقصان کا فیصلہ کیا ہے،جسے اس کے مال و اولاد نماز سے روک دیں یا غافل کر دیں اور مطلق نقصان صرف کفار کے ساتھ خاص ہے جب کہ مسلمان اگرچہ اپنے گناہوں کی وجہ سے نقصان اٹھاتا تو ہے لیکن آخر کار وہ فائدہ و نفع ہی پانے والا ہوتاہے۔اس آیت میں تو اﷲ نے تاکید کی چار مختلف شکلوں کو یکجا جمع کرکے تارکِ نماز کے خسارے کو انتہائی یقینی کر دیا ہے،جو اس کے کفر کی دلیل ہے۔تاکید کی ان چار قسموں کی تفصیل ’’الصلاۃ لابن القیم‘‘(ص 42-43)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 7۔ اس سلسلے کا ساتواں مقام سورۃ القلم ہے،جہاں پہلے فرمایا: ﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ﴾[القلم:35] ’’کیا ہم مسلمانوں(فرمانبرداروں)کو گناہ گاروں(مجرموں)کے برابر کر دیں گے؟‘‘