کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 107
﴿اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ﴾[القمر:47-48] ’’بے شک مجرمین(گناہ گار دنیا میں)گمراہ ہیں(اور آخرت میں)دہکتی آگ میں پڑیں گے،جس دن وہ اوندھے(جہنم کی)آگ میں گھسیٹے جائیں گے(تو ان سے کہا جائے گا)دوزخ کی آگ(تمھارے بدن سے)لگنے کا مزہ چکھو۔‘‘ سورۃ المطففین میں ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ﴾[المطففین:29] ’’بے شک مجرمین(گناہ گار لوگ دنیا میں)ایمان والوں سے ہنستے(مسخرہ پن کرتے)تھے۔‘‘ ان دو مقامات پر اﷲ نے مجرمین کو مومن مسلمان کی ضد بتایا ہے۔لہٰذا جب تارکِ نماز کو اہلِ جہنم مجرمین سے شمار کیا ہے اور مجرمین مومنین کی ضد ہیں تو یہ تارکِ نماز کے کفر کی دلیل ہوئی۔ 2۔ دوسرا مقام انتیسویں پارے کی سورۃ المرسلات آیت(46تا 48)ہے،وہاں بھی آیت(46)میں مجرمین کا ذکر ہوا ہے اور آیت(47)میں مجرمین کو ویل و ہلاکت کی وعید سنائی گئی،جس کا سبب ترکِ نماز ہے۔اﷲ نے پانچ نمازیں روزانہ فرض کی ہیں اور ان کے ترک پر سخت سزائوں کی وعیدسنائی ہے،تو اگر کوئی ایمان دار ہو اور اﷲ کی طرف سے اس حکم کے نزول کی تصدیق بھی کرتا ہو تو پھر یہ ناممکن ہے کہ وہ شخص ترک نماز پر مصر رہے۔اگر کوئی ترکِ نماز پر پھر بھی مصر ہے،تو سمجھ لیں کہ اس کا دل ایمان سے بالکل خالی ہے اور یہ فعل اس کے لیے کفر پر دلالت کرتا ہے۔ 3۔ تیسرا مقام سورۃ توبہ کی آیت(11)ہے،جہاں اخوتِ اسلامی کو توبہ و نماز اور زکات ادا کرنے کے ساتھ معلق قرار دیا گیا ہے اور جو نماز ادا نہیں کرتا،وہ مومنوں کے ساتھ اخوت کا مستحق نہیں،لہٰذا یہ بھی ان کے لیے غیر مومن ہونے کی وجہ سے ان کے کفر کی دلیل ہوئی۔ 4۔ چوتھا مقام سورۃ الماعون کی آیت(4-5)ہے کہ نماز میں عدمِ پابندی اور اسے وقت سے بے وقت کر کے پڑھنے سے متعلق موضوع کے ضمن میں بھی گزری ہیں،جن میں اﷲ نے ان نمازیوں کے لیے ویل کی وعید سنائی ہے،جو نمازوں سے بے خبر ہیں۔وہاں اس بے خبری کا معنیٰ نمازوں کو بے وقت ادا کرنا لیا گیا تھا،جس کی دلیل ایک مرفوع مگر ضعیف اور حسن موقوف روایت ذکر