کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 71
کیا ہے،جس کی تفصیل فتح الباری شرح صحیح بخاری،تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی،المغنی لابن قدامہ،فتاویٰ ابن تیمیہ اور دیگر شروحِ حدیث و کتبِ فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے،جہاں ایسی صورت میں سیال کو نجس اور جامد کو طاہر کہا گیا ہے۔
قلّتین کی مقدار:
غیر مطلق پانی کی چوتھی اور آخری قسم یعنی جھوٹے پانی کے حکم کی تفصیلات میں جانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو قلوں یا اس سے زیادہ میں نجاست گرنے سے اس کے نجس نہ ہو نے کا مسلک رکھنے والوں کے ان دو قلوں یا مٹکوں میں سمانے والے پانی کی مقدار کی بھی وضاحت بیان کر دی جائے۔اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ مٹکوں سے کون سے مٹکے مراد ہیں؟ اس کی تعیین ایک روایت میں بھی وارد ہوئی ہے،جسے امام خطابی رحمہ اللہ نے ’’معالم السنن شرح أبي داود‘‘(مختصر السنن للمنذري) میں اور امام زیلعی نے ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘(1/ 115۔112) میں ذکر کیا ہے،جس میں ابن جریج سے مرسلا مروی ہے:
﴿اِذَا کَانَ الْمَآئُ قُلَّتَیْنِ بِقِلَالِ ہَجَر﴾
’’جب بستی ہجر کے مٹکوں جتنے دو مٹکوں کی مقدار میں پانی ہو۔‘‘
مگر یہ روایت ایک تو مرسل ہے کہ جریج تابعی ہیں نہ کہ صحابی،اور وہ کسی صحابی کا ذکر کیے بغیر یہ روایت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔[1]پھر ’’الکامل لابن عدي‘‘ میں یہ روایت مرفوعاً مروی ہے،جس کے منفرد راوی مغیرہ بن قلاب ہیں،جو محدّثین کے نزدیک منکر الحدیث تھے۔اور نفیلی نے کہا ہے کہ وہ بیانِ حدیث میں امانت دار نہ تھے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ ان کی بیان کردہ اکثر احادیث کی متابعت نہیں کی جاتی۔[2]
تاہم شافعیہ نے ہجر کے مٹکوں سے مقدار کی تعیین کو اختیار کیا ہے،کیوں کہ اہلِ عرب اپنے اَشعار میں ہجر کے مٹکوں کا بکثرت ذکر کرتے آئے ہیں،جیسا کہ ابو عبید نے ’’کتاب الطہور‘‘ میں ذکر کیا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہجر کے مٹکے ان کے یہاں مشہور و معروف تھے۔یہی وجہ
[1] المغني(1/ 37)
[2] نیل الأوطار(1/ 31)