کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 638
ہی کیوں نہ آنا پڑے۔‘‘ ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم،سنن نسائی،موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ،ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا اِلَّا أَنْ یَّسْتَہِمُوْا عَلَیْہِ لَاسْتَہَمُوْا،وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِي التَّھْجِیْرِ لَاسْتَبقُوْا لَہٗ،وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِي الْعَتَمَۃِ وَ الصُّبْحِ لأَتَوْھُمَا وَلَوْ حَبْواً[1] ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذا ن کہنے اور صفِ اوّل میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے میں کس قدر اجر و ثواب ہے،توپھر انھیں اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے کہ ان میں اپنی باری مقرر کرنے کے لیے وہ قرعہ اندازی کیا کریں اور اگر انھیں(نمازِ ظہر کے لیے) مسجد میں بروقت جانے کے ثواب کا پتا چل جائے تو ضرور پہل کر جایا کریں اور اگر انھیں نمازِ عشا و فجر کے فضائل و برکات کا صحیح اندازہ ہو جائے تو وہاں دونوں نمازوں میں ضرور شریک ہوا کریں،چاہے انھیں گھٹنوں(سرینوں) کے بَل گھسٹ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے۔‘‘ اسی طرح ہی مگر قدرے مختصر الفاظ سے سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي صَلَاۃِ الْعِشَائِ وَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْواً[2] ’’اگر لوگوں کو نمازِ عشا اور فجر کے ثواب کا علم ہو جائے تو وہ ان نمازوں میں ضرور شامل ہوں،چاہے کولہوں(گھٹنوں) کے بل گھسٹتے ہی کیوں نہ آئیں۔‘‘ نمازِ فجر کی عمومی فضیلت کے علاوہ جمعہ کے دن فجر کا خصوصی مقام بتایا گیا ہے،حتیٰ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے با جماعت ادا کرنے کی شکل میں تمام نمازوں سے افضل قرار دیا ہے،جیسا کہ شعب الایمان بیہقی
[1] صحیح البخاري(2/ 96) مختصر صحیح مسلم،رقم الحدیث(268) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(526) صحیح الجامع(5/ 79) [2] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(796) صحیح الجامع(5/ 79)