کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 615
ایک رات نیند سے بیدار ہوئے تو فرمایا: ﴿سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا ذَا اُنْزِلَ اللَّیْلَۃَ مِنَ الْفِتَنِ،وَمَا ذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ،أَیْقِظُوْا صَوَاحِبَ الْحُجَرِ فَرُبَّ کَاسِیَۃٍ فِيْ الدُّنْیَا عَارِیَۃٍ فِيْ الْآخِرَۃِ[1] ’’اللہ پاک ہے،آج رات کتنے ہی فتنے نازل ہوئے ہیں اور کتنے ہی خزائن کھلے ہیں!پھر فرمایا: ان حجروں میں موجود تمام امہات المومنین کوجگا دو،کتنی ہی عورتیں دنیا میں تو لباس پہنے ہوئے ہیں،مگرآخرت میں عریاں ہوں گی۔‘‘ اس حدیث کو ’’باب العلم والعظۃ باللیل‘‘ میں لاکر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات پر تنبیہ کرنا چاہی ہے کہ نمازِ عشا کے بعد جن باتوں کی ممانعت ہے،وہ ایسی باتیں ہیں،جن میں کوئی خیرنہ ہو۔[2] بخاری شریف کے کتاب العلم کے اکتالیسویں باب ’’باب السمر في العلم‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ مشہور حدیث لائے ہیں،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشا کی نماز پڑھائی،سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور(خطبہ دیتے ہوئے) فرمایا: ﴿رَأَیْتُکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہٖ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ[3] ’’یہ آج کی رات تم نے دیکھی ہے؟ آج سے ایک سو سال تک کوئی ذی روح،جو اس وقت روے زمین پر ہے،نہیں رہے گا۔‘‘ اس روایتِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں تو اس ارشاد کی تاریخ مطلق آخری ایام ہے،جب کہ یہی واقعہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔اس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے ایک ماہ پہلے بیان فرمائی تھی۔[4] نمازِ عشا کے بعد ایسی علمی گفتگو کا ذکر بکثرت احادیث میں آیا ہے،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ
[1] صحیح البخاري مع الفتح(1/ 210) [2] فتح الباري أیضاً(1/ 210) [3] صحیح البخاري(1/ 211،2/ 74) [4] فتح الباري أیضاً۔