کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 611
کہ قائلینِ جواز کا استدلال صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہے،جس میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نمازِ عشا کو بہت موخر کر دیا تو اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:
﴿اَلصَّلَاۃَ!نَامَ النِّسَائُ وَالصِّبْیَانُ﴾ [1]
’’نماز کے لیے تشریف لائیں کہ اب تو عورتیں اور بچے سوگئے ہیں۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے:
’’بابُ النَّوم قبلَ العشآئِ لمن غُلِبَ‘‘
’’عشا سے پہلے غلبہ نیند کی وجہ سے سونے کے جواز کا بیان۔‘‘
گویا ان کے نزدیک عشا سے پہلے سونا تب مکروہ ہے،جب آدمی کی اپنی مرضی و احتیاط سے ہو،ورنہ نہیں،کیوں کہ عورتوں اور بچوں کے سو جانے کا سن کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر نہیں کی تھی۔
شارح بخاری فرماتے ہیں:
’’اگر ایسی حالت میں نماز کے انتظار کے لیے بیٹھے بیٹھے سونے اور اپنے گھر میں غلبہ نیند کی وجہ سے سونے میں فرق کیا جائے تو یہ زیادہ اولیٰ ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ نے ابن سید الناس سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’نماز کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے سونا تو کوئی ممنوع نہیں ہے اور نہ اس کا نیند سے کوئی تعلق ہے،بلکہ وہ نیند کی ابتدائی حالت اونگھ ہے۔یعنی اس حالت میں اونگھنے کی ممانعت کیسے ہوسکتی ہے اور اس سے نیند کے جواز کا استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے؟‘‘[2]
مختصر یہ کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے بقول اکثر اہلِ علم کے نزدیک عشا سے پہلے سونا مکروہ ہے اور ابن سید الناس کہتے ہیں کہ صحابہ کی ایک جماعت نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور شدت سے ممانعت بیان کی ہے۔جب کہ ان میں سے حضرت عمر،ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔امام مالک رحمہ اللہ کا اختیار بھی کراہت ہی ہے اور امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث کراہت ہی پر دلالت کرتی ہیں۔
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(569)
[2] نیل الأوطار(1/ 2/ 14)