کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 610
الغرض فجر اور ظہر کی دو دو سنتوں کی اہمیت ذکر کی جاچکی ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں قضا کرنا بھی ثابت ہے۔وتروں کو فجر کی سنتوں سے بھی زیادہ موکد شمار کیا گیا ہے،لہٰذا کم از کم مذکورہ رکعتوں کو تو قضا کر لینا ہی زیادہ بہتر ہے۔ عشا سے پہلے سونا اور بعض استثنائی صورتیں: اب نماز پنج گانہ کے اوقات کا موضوع ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ عشا سے پہلے سونے اور نمازِ عشا کے بعد فضول باتیں کرنے کے بارے میں شرعی نقطہ نظر کی بھی تھوڑی سی وضاحت کر دی جائے،اس سلسلے میں صحیحین اور سنن اربعہ کے حوالے سے حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث گزر چکی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَسْتَحِبُّ أَنْ یُؤَخِّرَ الْعِشَآئَ الَّتِيْ یَدْعُوْنَہُ الْعَتَمَۃَ،وَکَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِیْثَ بَعْدَھَا[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عشا جس کو لوگ ’’عتمہ‘‘ بھی کہتے تھے،اسے موخر کرنے کو مستحب سمجھتے اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد باتیں کرنے کو مکروہ جانتے تھے۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم نمازِ عشا سے پہلے سونے کو مکروہ شمار کرتے ہیں اور بعض نے اس کی رخصت دی ہے خصوصاً ماہ رمضان میں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جن سے رخصت منقول ہے،ان سے بھی اس شرط کے ساتھ رخصت منقول ہے کہ سونے والے کے پاس ایسا شخص موجود ہو،جو اُسے نماز کے لیے جگا دے یا وہ خود سے اٹھ جاتا ہو اور یہ شرط مناسب بھی ہے،کیوں کہ نمازِ عشا سے پہلے سونے کی ممانعت کا سبب اس کا وقت نکلنے کا خدشہ ہے۔امام طحاوی نے رخصت کو عشا کا وقت ہونے سے پہلے پہلے پر اور ممانعت کو عشا کا وقت ہو جانے کے بعد پر محمول کیا ہے۔[2] قائلینِ کراہت کا استدلال تو اسی مذکورہ حدیث اور ایسی ہی بعض دیگر احادیث سے ہے،جب
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 49،73) صحیح مسلم(3/ 5/ 45۔146) نصب الرایۃ(1/ 248) المنتقیٰ مع النیل(1/ 2/ 13) الفتح الرباني(2/ 272) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(385) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(142) صحیح سنن النسائي(516 ) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(701) [2] الفتح الرباني(2/ 49) نیل الأوطار(1/ 2/ 13)