کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 608
ایسے ہی سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد اور مستدرک میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: ﴿مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِیَہٗ فَلْیُوْتِر إِذَا ذَکَرَہٗ أَوِ اسْتَیْقَظَ[1] ’’جو شخص وتر سے سویا رہ جائے یا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ بیدار ہونے پر یا یاد آنے پر پڑھ لے۔‘‘ اسی طرح مسند احمد اور طبرانی اوسط میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ﴿کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصْبِحُ فَیُوْتِرُ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے پر وتر پڑھ لیتے تھے۔‘‘ سنن بیہقی اور مستدرک حاکم(وصححہ) میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿رُبَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُوْتِرُ وَقَدْ قَامَ النَّاسُ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ[3] ’’بعض دفعہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی وتر پڑھتے دیکھا،جب لوگ نمازِ فجر پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔‘‘ فجر و ظہر کی سنتوں کی قضا سے متعلقہ احادیث سے احکام اخذ کرتے ہوئے شیخ عبدالرحمن البنا لکھتے ہیں: ’’ان احادیث میں موکدہ سنتوں،وتر اور تہجد وغیرہ کی قضا کی مشروعیت کا ثبوت ہے۔ائمہ اربعہ سمیت بعض دیگر ائمہ اور صحابہ و تابعین کی ایک جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وتر قضا ہو جائیں تو ان کی قضا ہے،لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ کب تک قضا ممکن ہے؟‘‘ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
[1] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(1268) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(1188) سنن الترمذي مع التحفۃ(2/ 568) الإرواء(2/ 153) و مشکاۃ(1/ 397۔399) و حالہ،صحیح الجامع،رقم الحدیث(6562) [2] شرح الفتح الرباني(2/ 312) [3] حوالہ سابقہ۔و الإرواء(2/ 155)