کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 607
کے موقع پر(راستے میں) نمازِ فجر سے سوئے رہ گئے تھے تو انھوں نے سنتیں اور فرض سبھی قضا کیے تھے اور غزوۂ خندق کے موقع پر جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد نمازیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سنتوں کے بغیر صرف فرض قضا کیے تھے۔‘‘ دوسرے حصے کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قضا شدہ فرض نمازیں تمام اوقات میں(بلا تفریق اوقاتِ مکروہہ و غیر مکروہہ) پڑھی جا سکتی ہیں،کیوں کہ صحیح حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الْفَجْرِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْیَصِلْ إِلَیْھَا أُخْرٰی[1] ’’جس نے طلوعِ آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی تو اسے چاہیے کہ اس کے ساتھ ہی دوسری رکعت بھی ملا لے۔‘‘ اس حدیث کے ان الفاظ میں اگرچہ صرف نمازِ فجر کا ذکر ہے،لیکن موصوف کا استدلال اس طرح ہے کہ اوقاتِ مکروہہ میں(جو طلوعِ آفتاب کا وقت ہے) اس میں فجر کی نماز قضا کی جاسکتی ہے تودوسرے اوقاتِ مکروہہ میں کوئی بھی فرض نماز قضا کی جا سکتی ہے،جیسا کہ اوقاتِ مکروہہ سے استثنائی صورتیں ذکر کی جاچکی ہیں۔ الغرض موصوف کا یہ فتویٰ انتہائی معتدل ہے کہ اگر قضا نمازیں زیادہ ہوں تو صرف فرض پڑھ لیں اور اگر قضا نماز صرف ایک آدھی ہو تو موکدہ سنتیں بھی پڑھ لیں۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ صحیح مسلم،سنن کبریٰ بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث ہے: ﴿إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ إِذَا غَلَبَتْہُ عَیْنُہُ أَوْ وَجَعٌ فَلَمْ یُصَلِّ بِاللَّیْلِ صَلّٰی بِالنَّھَارِ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غلبہ نیند یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کو(تہجد کی) نماز نہ پڑھ پاتے تو دن چڑھنے پر بارہ رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔‘‘
[1] مجموع الفتاویٰ(22/ 104) الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان،رقم الحدیث(581) [2] صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 6/ 28) الفتح الرباني(2/ 312)