کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 598
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ اختلاف صرف اس وقت ہے،جب قضا نمازیں زیادہ نہ ہوں اور اگر قضا نمازیں(کثیر) زیادہ ہوں تو پھر اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ پہلے موجودہ وقت کی حاضر نماز ہی کو ادا کیا جائے گا،پھر نمازوں کی قلیل و کثیر کی حد میں بھی اختلاف ہے۔چنانچہ کہا گیا ہے کہ اگر صرف ایک ہی نماز قضا ہوئی ہو تو قلیل ہے۔(اور زیادہ ہو جائیں تو کثیر) اور یہ بھی کا گیا ہے کہ اگر چار نمازیں قضا ہوں تو قلیل ہیں(اس سے زیادہ ہو جائیں تو کثیر)۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کے اس قول سے اس بات کی وضاحت تو ہوگئی ہے کہ اگر قضا نماز قلیل ہو،یعنی دو ایک ہو تو پہلے اسے پڑھ لیا جائے اور پھر وقتی نماز کو۔قلیل و کثیر کے سلسلے میں دوایک نماز کو قلیل شمار کر نا ہی مناسب لگتا ہے اور یہی وہ صورت ہے،جس میں انھیں پڑھنے کی شکل میں وقتی نماز کا تنگ سا وقت نہیں گزرنے پائے گا۔اگر وقت بھی تنگ ہو اور قلیل کی مقدار چار شمار کرتے ہوئے چار نمازوں کو یکے بعد دیگرے پڑھنے لگیں تو ظاہر ہے کہ پھر تو پانچویں حاضر نماز کے بھی قضا ہو جانے کا خدشہ ہے۔ہاں اگر حاضر نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو پھر دوسری بات ہے،تب چاروں یا تینوں ہی کو پہلے پڑھ لیں۔ جب حاضر نماز کی جماعت کھڑی ہو؟ یہ بھی اس وقت ہے جب کہ حاضر نماز کا وقت کافی ہو اور قضا پڑھنے والے صرف آپس ہی میں ہوں اور اگر قضا والا اکیلا ہے اور حاضر نماز کا وقت بھی بہت کم ہے،بلکہ ابھی ابھی شروع ہی ہوا ہے،لیکن جب وہ مسجد میں پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ حاضر یا وقتی نماز کی جماعت کھڑی ہو چکی ہے تو وہ کیا کرے؟ اسی سے ملتا جلتا سوال شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بھی کیا گیا،جو ان کے مجموعہ فتاویٰ(22/ 106) میں مذکور ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص کی نمازِ عصر قضا ہوگئی۔جب وہ مسجدمیں پہنچا تو دیکھا کہ مغرب کی جماعت ہو رہی ہے تو کیا وہ قضا نماز مغرب سے پہلے پڑھے یا نہیں؟ حمد و ثناے باری تعالیٰ کے بعد موصوف نے جواب دیا کہ وہ(عصر پہلے نہ پڑھے) بلکہ وہ امام کے ساتھ شامل ہو کر پہلے مغرب کی نماز پڑھے،پھر عصر کی نماز پڑھ لے،اس پر علما کا اتفاق ہے،لیکن کیا وہ عصر کی نماز کے بعد مغرب کی نماز کو پھر دہرائے گا یا نہیں؟ اس سلسلے میں ہمارے علما کے دو قول ہیں: 1۔ دہرائے گا۔یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما،امام مالک،ابو حنیفہ اور مشہور روایت کے مطابق امام احمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔