کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 581
نیز حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ والی اس مرسل روایت کی تائید میں کئی دوسرے شواہد بھی ہیں،مثلاً مسند امام شافعی اور انہی کی کتاب ’’إختلاف الحدیث‘‘ اور ’’کتاب الجمعۃ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿إِنَّ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھیٰ عَنِ الصَّلَاۃِ نِصْفَ النَّھَارِ حَتَّیٰ تَزُوْلَ الشَّمْسُ إِلَّا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا،سوائے جمعہ کے دن کے۔‘‘ اس روایت کی سند میں دو راوی ابراہیم بن محمد اور اسحاق بن عبد اللہ ہیں،جنھیں تحقیق زاد المعاد میں متروک بتایا گیا ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے فتح الربانی کی شرح میں شیخ احمد عبدالرحمن البنّاء نے بھی کہا ہے کہ اس کی سند پر کلام کیا گیا ہے۔یہی روایت سنن اثرم اور بیہقی کی ’’معرفۃ السنن‘‘ میں بھی مروی ہے،جہاں حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں: ﴿کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْھٰی عَنِ الصَّلَاۃِ نِصْفَ النَّھَارِ إِلَّا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنے سے روکا کرتے تھے،سوائے جمعہ کے دن کے۔‘‘ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم امام بیہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں بعض راوی ایسے ہیں،جو قابلِ حجت نہیں،لیکن اگر ان احادیث کو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے ساتھ ملا لیا جائے تو کچھ قوت اختیار کر جا تی ہیں۔فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے بھی لکھا ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی سند میں انقطاع ہے اور امام بیہقی نے اس کے کچھ ضعیف شواہد ذکر کیے ہیں،جنھیں ملانے سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔[3] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ جمعہ کی دن جلد مسجد پہنچ جاتے ہیں اور امام کے خطبے کے لیے نکلتے تک نوافل پڑھتے رہتے ہیں۔امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے جویہ بات
[1] صحیح البخاري مع الفتح الرباني(2/ 370،392) عن سلمان فارسي رضی اللہ عنہ،صحیح الجامع(3/ 6/ 241) بحوالہ زاد المعاد(1/ 379) و شرح الفتح الرباني(2/ 300) فتح الباري(2/ 63) [2] حوالہ جات بالا۔ [3] فتح الباري(2/ 63)