کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 577
کے قائل ہیں،ان کا استدلال ان احادیث سے ہے،جن میں طلوعِ آفتاب کے وقت نماز ادا کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،لیکن حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں استدلال صحیح نہیں رہتا،پھر یہ معاملہ صرف نمازِ فجر کے ساتھ ہی خاص کیوں کیا جائے،جب کہ ممانعت والی احادیث ہی میں غروبِ آفتاب کے وقت نمازِ عصر کی ممانعت بھی آئی ہے،لیکن اسے احناف نے مستثنیٰ مانا ہے تو پھر فجر کو مستثنیٰ ماننے میں کیا چیز مانع ہے؟
بعض حنفی اہلِ علم نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ ممانعت والی احادیث سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت منسوخ ہوگئی ہے،ان کا یہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہے اور کوئی قطعی دلیل نہ ہونے کی صورت میں محض احتمال کی بنا پر ناسخ تو نہیں مانا جا سکتا۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے بقول ان دونوں کی احادیث سے بعض کو ناسخ اور بعض کو منسوخ ماننے کے بجائے اور ہر دو طرح کی احادیث کے مابین جمع و تطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ ممانعت والی احادیث کو غیر سببی نفلی نمازوں کی ممانعت پر محمول کیا جائے نسخ ماننے سے یہ تخصیص ہی اولی ہے۔[1]
اسی سببی و غیر سببی والے فرق کو نقل کر کے امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے ہے،جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث عام ہیں اور ہر نماز ہی کو شامل ہیں،جب کہ جواز والی یہ حدیث خاص ہے،پس عام کی خاص پر بنیاد رکھی جائے گی(اور کہا جائے گا کہ) اس وقت کوئی نماز ہی جائز نہیں،چاہے وہ سببی ہو یا غیر سببی۔سوائے اس کے کہ کوئی دلیل موجود ہو جو کسی نماز کو خاص کر دے تو اسے ادا کرنا ہوگا،جیسا کے یہاں فجر و عصر کا معاملہ ہے) ہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ امام نووی رحمہ اللہ کے بقول اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے کہ جان بوجھ کر فجر کو طلوعِ آفتاب تک اور عصر کو غروبِ آفتاب تک موخر کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ یہ صرف مجبوری کی حالت کے لیے خاص ہے۔[2]
سورج کے عین سر پر ہونے کے وقت نماز کی کراہت ہونے سے جمعہ کے دن کا استثنا:
یہ تو ہوا طلوع و غروب کے سلسلے میں اور اب آئیے سورج کے عین سر پر ہونے کے وقت نماز کی
[1] فتح الباري(2/ 56)
[2] نیل الأوطار(1/ 2/ 22)