کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 576
’’جس نے نماز کی ایک رکعت پالی،اس نے ساری نماز ہی پالی،البتہ اسے چاہیے کہ وہ بقیہ رکعتوں کو پورا کرلے۔‘‘ سنن بیہقی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: ﴿مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْیَصِلْ إِلَیْھَا أُخْرٰی[1] ’’جس نے سورج نکلنے سے پہلے ایک رکعت پالی،اسے چاہیے کہ وہ اس رکعت کے ساتھ ایک اور رکعت ملا ئے(یعنی نماز مکمل کر لے)۔‘‘ اسی مفہوم کی ایک حدیث اُم المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی صحیح مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں مردی ہے،جس میں ارشاد نبوی ہے : ﴿مَنْ اَدْرَکَ مِنَ الْعَصْرِ سَجْدَۃً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَھَا[2] ’’جس نے غروبِ آفتاب سے پہلے ایک رکعت عصر پڑھ لی یا طلوعِ آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی،اس نے نماز پالی۔‘‘ حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اور اس کی متعدد روایات کے الفاظ سے اصل موضوع تو واضح ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو گیا کہ امام شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی مسلک اس سلسلے میں اقرب الی السنۃ ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دوسری رائے اختیار کی ہے کہ اگر کسی کے فجر پڑھنے کے دوران ہی سورج طلوع ہو جائے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے،لیکن مذکورہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے خلاف ہے،جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ خود امام صاحب کے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ کو بھی اپنے استاذِ گرامی کی اس رائے سے اتفاق نہیں تھا،بلکہ وہ دیگر ائمہ کی طرح جواز کے قائل تھے اور عصر کے بارے میں تو عام احناف بھی جواز ہی کے قائل ہیں۔ امام صاحب رحمہ اللہ جو نماز کے دوران میں سورج طلوع ہو جانے سے اس کے باطل ہو جانے
[1] حوالہ سابقہ۔ [2] صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 5/ 105۔106) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(537) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(700) المنتقی مع النیل(1/ 2/ 21)