کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 573
قضا،نذر مانی ہوئی نماز اور طواف کی دو رکعتیں پڑھ لینا بھی جائز ہے۔[1] یہ چاروں معروف فقہی مکاتبِ فکر کے ائمہ و فقہا کی آرا ہیں اور ان میں سے بعض امور ایسے بھی ہیں،جنھیں مکروہ و ممنوع بتایا گیا ہے،حالانکہ ان کے استثنا و جواز کے دلائل صحیح احادیث میں موجود ہیں۔مثلاً: 1۔ بھولی ہوئی۔ 2۔ نیند کی وجہ سے رہ جانے والی فرض نماز کے یاد آنے پر،یا نیند سے بیدار ہونے کے وقت اس کو ادا کرنے کے جواز کے دلائل ذکر کیے جا چکے ہیں۔ 3۔ حرم مکی میں طواف کی دو رکعتوں،یعنی نمازِ طواف وغیرہ تمام اوقات میں،کے جواز کی دلیل پر مشتمل حدیث بھی ذکر کی جاچکی ہے۔ 4۔ عام سببی نفلی نمازوں کے جواز کی طرف بھی اشارہ گزرا ہے۔ 5۔ نمازِ جنازہ اور تدفین کی کراہت کے راجح ہونے کا تذکرہ بھی ہو چکا ہے،سوائے اس کے کہ لاش کے بگڑنے کا خطرہ ہو تو پھر بلاکراہت نماز و تدفین جائز ہے۔ اس دن کی فجر و عصر: احناف کی طرف سے،یہ جو کہا گیا ہے کہ ان تینوں اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے،فرض ہو یا واجب یا نقل ہو،ادا ہو یا قضا اور صرف اس دن کی نمازِ عصر کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے تو اس کی دلیل بھی موجود ہے،البتہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی طرح اس کے ساتھ ہی اس دن کی نمازِ فجر کو بھی مستثنیٰ کر لینا چاہیے،کیوں کہ اس کے بھی دلائل موجود ہیں۔ایسے ہی عین سر پر ہونے کے وقت نوافل کے جواز کا معاملہ بھی ہے اور اس کے بھی دلا ئل موجود ہیں۔ بعض احادیث ایسی ہیں،جو خاص انہی دو مواقع سے تعلق رکھتی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے اگر فجر کی نماز موخر ہو جائے،حتیٰ کہ سورج طلوع ہو رہا ہو تو عذر و مجبوری میں ان اوقات کے دوران میں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے اوریہ طلوع و غروب کے وقت نماز ادا کرنا تو صرف اس دن کی فجر و عصر کے ساتھ خاص ہے،البتہ کسی بھی نماز کے آخری وقت میں ایک رکعت ادا کرنا اور
[1] دیکھیں: فقہ السنۃ(1/ 7/ 108)