کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 572
ہیں۔امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کے دن عین دوپہر میں سورج کے سر پر ہونے کے وقت نوافل پڑھنا اس حکمِ کراہت میں نہیں آتا اور شافعیہ کے نزدیک ان اوقاتِ ثلاثہ میں غیر سببی نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔البتہ فرض مطلقاً اور سببی نوافل،جمعہ کے دن عین سورج کے سر پر ہونے کے وقت نوافل اور حرمِ مکہ میں نوافل بلا کراہت جائز ہیں۔
مالکیہ کے نزدیک طلوعِ آفتاب اور غروب کے وقت نوافل پڑھنا(نہ صرف مکروہ بلکہ) حرام ہے،اگرچہ وہ سببی ہی کیوں نہ ہوں۔نذر والی نماز اور سجدہ تلاوت کا بھی یہی حکم ہے اور نمازِ جنازہ بھی اسی میں شامل ہے،سوائے اس کے کہ لاش کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو پھر یہ جائز ہے۔انھوں نے ان دونوں اوقات میں فرائض ادا کرنے کو مباح قرار دیا ہے،خواہ وہ ادا ہوں یا قضا۔
اسی طرح سورج کے عین سر پر ہونے کے وقت بھی انھوں نے مطلقاً نماز کو مباح کہا ہے،فرض ہوں یا نفل(یعنی اس وقت ان کے یہاں جمعہ کے دن اور حرم مکی کی شرط بھی نہیں)
علامہ باجی موطا امام مالک کی شرح میں المبسوط کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ابن وہب سے مروی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
’’میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ جمعہ کے دن سورج کے سر پر ہونے کے وقت نماز پڑھتے تھے اور بعض احادیث میں اس کی مما نعت بھی وارد ہوئی ہے۔میں اسے منع نہیں کرتا،کیوں کہ میں نے لوگوں(اہلِ مدینہ) کو اس وقت نماز پڑھتے پایا ہے اور نہ میں اس وقت نماز پڑھنے کو محبوب رکھتا ہوں،کیوں کہ اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔‘‘
حنابلہ کے نزدیک ان تینوں اوقات یعنی طلوع و غروب اور نصف النہار کے وقت میں کوئی نفلی نماز نہیں ہوتی،وہ سببی ہو یا غیر سببی،مکہ مکرمہ میں ہو یا کسی دوسری جگہ پر اور جمعہ کا روز ہو یا کوئی دوسرا دن۔ہاں البتہ انھوں نے جمعہ کے دن تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کو بلاکراہت جائز قرار دیا ہے۔وہ چاہے عین دوپہر کے وقت واقع ہوں اور خطبے کے دوران ہی کیوں نہ پڑھی جائیں۔
ان کے نزدیک نمازِ جنازہ بھی ان تینوں اوقات میں حرام ہے۔ہاں اگر لاش کے بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو پھر بلاکراہت جائز ہے اور ان تینوں اوقات میں ان کے نزدیک فوت شدہ فرضی نمازوں کی