کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 571
احادیث پر ہی بس نہیں،بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی کراہت کا پتا چلتا ہے،چنانچہ صاحبِ فتح الباری نے تین آثار ذکر کیے ہیں:
پہلا اثر:
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فَنَھٰی عَنِ الصَّلَاۃِ نِصْفَ النَّھَارِ‘‘[1]
’’عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنے سے روکتے تھے۔‘‘
دوسرا اثر:
دوسرے اثر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’کُنّا نُنْہٰی عن ذلک‘‘ ’’ہم اس سے روکے جاتے تھے۔‘‘
تیسرا اثر:
تیسرے اثر میں حضرت ابو سعید مقبری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’أَدْرَکْتُ النَّاسَ وَھُمْ یَتَّقُوْنَ ذٰلِکَ‘‘[2]
’’میں لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ اس(عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنے) سے بچتے تھے۔‘‘
ان آثار سے بھی جمہور کے مسلک ہی کی تائید ہوتی ہے کہ عین دوپہر یا زوالِ آفتاب کے وقت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
استثنائی صورتیں:
یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ فقہاے احناف کے نزدیک تو ان تینوں اوقات میں مطلقاً نماز منع ہے،فرض ہو یا واجب،چاہے نفل ہو اور ادا ہو یا قضا،البتہ اس دن کی عصر کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے ایک قول کی رو سے فجر کی نماز بھی طلوعِ آفتاب سے فاسد نہیں ہوتی۔ایسے ہی نمازِ جنازہ اور ان اوقات میں تلاوت کی گئی آیات پر سجدہ تلاوت بھی مستثنیٰ
[1] فتح الباري(2/ 63)
[2] فتح الباري(2/ 63)