کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 569
سے رک جاؤ،کیوں کہ اس وقت جہنم کو بڑھکایا اور گرمایا جاتا ہے۔‘‘ آگے فرمایا: ﴿فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَیْیُٔ فَصَلِّ[1] ’’جب سایہ بڑھ جائے(سورج ڈھل جائے) تو نماز پڑھو۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح کر دی گئی ہے کہ سورج کے سر پر ہونے یعنی زوال کے وقت نماز پڑھنا منع ہے،یہاں تک کہ سورج سر سے ڈھل نہ جائے۔[2] حدیثِ ثالث: ایک تیسری حدیث سنن اربعہ و بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿حَتَّیٰ تَسْتَوِيَ الشَّمْسُ عَلٰی رَأْسِکَ کَالرُّمْحِ فَإِذَا زَالَتْ فَصَلِّ[3] ’’(طلوعِ آفتاب کے بعد سے لے کر اس وقت تک نماز پڑھو) یہاں تک کہ سورج عین نیزے کی طرح تمھارے سر پر آجائے(تب رک جاؤ) اور جب سورج سر سے ڈھل جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو۔‘‘ حدیثِ رابع: چو تھی حدیث موطا امام مالک،سنن نسائی و ابن ماجہ میں ہے،جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا گیا ہے۔حضرت عبداللہ صنابحی رحمہ اللہ سے مروی مرسل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،جس میں ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے توشیطان اپنے سینگ اس کے ساتھ(یا سامنے) کر دیتا ہے اور جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ سینگ ہٹا لیتا ہے: ﴿ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ قَارَنَھَا وَإِذَا زَالَتْ فَارَقَھَا
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 6/ 116) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(1251) سنن أبي داود،رقم الحدیث(1137) [2] شرح صحیح مسلم(3/ 6/ 116) [3] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(1252)