کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 567
ہے کر یا تو منہ اندھیرے(غلس میں ) پڑ ھ لو یا پھر سورج نکلنے دو۔اس سے بھی زیادہ واضح طور پر یہ بات سنن کبریٰ بیہقی میں مروی ایک دوسرے اثر میں ہے،جس میں حضرت جریج بیان کرتے ہیں کہ حضرت زیاد رحمہ اللہ نے انھیں بتایا کہ انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ اہلِ بصرہ کے قبرستان میں جنازہ لا کر رکھا گیا۔جب کہ(عصر کے بعد) سورج زدر پڑ چکا تھا تو انھوں نے اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی،یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا،تب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے منادی کرنے والے کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دو(اذان کہہ دو) پھر انھوں نے نمازِ مغرب کی جماعت کرائی،جب کہ اس جماعت میں حضرت انس بن مالک اور دوسرے حضرت ابو برزہ انصاری رضی اللہ عنہما صحابیِ رسول موجود تھے،پھر نمازِ مغرب کے بعد انھوں نے نمازِ جنازہ پڑھی۔[1] غرض کہ امام خطابی رحمہ اللہ ’’معالم السنن‘‘(4/ 327) میں لکھتے ہیں کہ ان تینوں اوقات میں نمازِ جنازہ پڑھنے اور مردے کو دفن کرنے کے جواز میں اختلاف ہے۔اکثر اہلِ علم ہی امام عطاء،ابراہیم نخعی،اوزاعی،سفیان ثوری،اصحابِ رائے یعنی فقہاے احناف اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ جنازہ و تدفین دن یا رات کے کسی بھی وقت ہوں،بلاکراہت جائز ہیں،لیکن اوّل الذکر جماعتِ علما والا کراہت کا قول ہی حدیث کے موافق ہونے کی وجہ سے اولیٰ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان اوقاتِ مکروہہ میں نمازِ جنازہ پڑھنا اور مردے کو دفن کرنا،اکثر کے نزدیک مکروہ ہے اور یہی قول اقرب الی السنۃ ہے۔ امام ابو حنیفہ،شافعی،احمد اور جمہور کے نزدیک تو سورج کے عین سر پر ہونے کے وقت نماز مکروہ ہے۔البتہ امام مالک رحمہ اللہ اس وقت نماز کے جواز کے قائل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں نے جتنے بھی اہلِ علم و فضل(اہلِ مدینہ) کو پایا ہے،وہ عبادت میں محنت کرتے تھے اور نصف النہار یعنی سورج کے سر پر ہونے کے وقت بھی نماز پڑھتے تھے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے اس قولِ جواز کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے خود اپنے موطا میں حضرت صنابحی رحمہ اللہ سے مروی حدیث روایت کی ہے۔(جس میں اس وقت
[1] قال الألباني: روی البیھقي بسند جید(الجنائز،ص: 131)