کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 555
2۔ یہ فعل نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔
3۔ جس شخص کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آجائے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آیا تھا تو یہ اسی کے ساتھ خاص ہے۔[1]
ایک دوسرے مقام ’’باب ما یصلیٰ بعد العصر من الفوائت ونحوھا‘‘ میں وارد شدہ احادیثِ بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ ان احادیث کو ان علما نے بھی بنیاد بنایا ہے،جو کہتے ہیں کہ نمازِ عصر کے بعد مطلقاً نوافل جائز ہیں،جب تک کہ غروبِ آفتاب کے وقت نماز کا قصد نہ ہو(اور ہم اس سند میں مختلف مذاہب نقل کر چکے ہیں) اور جن کے نزدیک اس وقت مطلقاً نوافل مکروہ ہیں،انھوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعلِ گرامی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر سنن موکدہ میں سے کوئی چیز رہ جا ئے تو اسے بلا کراہت ان اوقات مکروہہ میں قضا کیا جاسکتا ہے۔رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دو رکعتوں پر ہمیشگی کرنا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث((کَانَ إِذَا صَلّٰی صَلاَۃً اَثْبَتَہَاَ﴾ سے پتا چلتا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو رکعتوں کے عصر کے بعد ادا کرنے پر ہمیشگی کرنا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا نہ کہ اصل قضا کرنا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت ذکوان نے جو روایت بیان کی ہے(جو مسند احمد اور معانی الآثار طحاوی میں مروی ہے) کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
﴿اَنَقْضِیْہِمَا إِذَا فَاتَتَا؟﴾
’’(اگر کبھی) ہم سے بھی یہ دو سنتیں رہ جائیں تو کیا ہم بھی ان کی قضا دیں؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا﴾ ’’نہیں۔‘‘
یہ روایت ضعیف ہے،جس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ کلام نقل کرنے کے بعد حافظ عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ طحاوی رحمہ اللہ نے یہ روایت بیان کی ہے اور اس سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ یہ(دو سنتیں قضا کرنا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا،لیکن اس پر کلام کیا گیا ہے۔[2]
[1] فتح الباري(3/ 6/ 121)
[2] فتح الباري(2/ 64۔65)