کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 554
امت کے لیے بوجھ نہ بن جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو پسند فرماتے تھے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے ہلکی پھلکی ہو۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد فوت شدہ فرضی نمازوں اور سننِ راتبہ یعنی سنن موکدہ کی قضا دی جا سکی ہے اور یہ عصر کے بعد والے وقتِ کراہت سے ایک مستثنیٰ صورت ہے۔
دوامِ عمل یکے از خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم :
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دو سنتیں تو ایک بار قضا ہوئی تھیں،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان احادیث کی روسے پھر ہمیشہ ہی دو رکعتیں عصر کے بعد پڑھا کرتے تھے،اگرچہ اس دن سے پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے پتا چلتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جس دن نمازِ ظہر کی آخری دو سنتیں قضا ہوئی تھیں،اس دن تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قضا دی،پھر بعد میں کیوں پڑھا کرتے تھے؟ تو اس کا جواب صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں موجود ہے،جس میں وہ ارشاد فرماتی ہیں:
﴿کانَ إِذَا صلّٰی صَلَاۃً اَثْبَتَہَا﴾ [1]
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو پھر اس پر ہمیشگی اختیار کرتے تھے۔‘‘
گویا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا۔امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ بعد کی سنتوں کو ادا کرنے پر دوام اور ہمیشگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔البتہ ایسی موکدہ سنتوں کی اوقاتِ کراہت میں قضا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصائص میں سے نہیں بتایا،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ یہ ظہر کی دو سنتیں ہیں اور یہ نہیں فرمایا کہ یہ فعل صرف میرے ہی ساتھ خاص ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت فرمانا جوازِ اقتدا کی اظہر دلیل ہے۔[2]
حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباري‘‘ میں لکھا ہے کہ ان احادیث کی بنا پر اہلِ علم کے تین مختلف نظریات ہیں:
1۔ اوقاتِ مکروہہ میں فوت شدہ نمازوں کی قضا دی جا سکتی ہے۔
[1] صحیح مسلم(3/ 6/ 122) صحیح الجامع(2/ 4/ 225)
[2] شرح صحیح مسلم للنووي(3/ 6/ 121)