کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 553
عَبْدِ الْقَیْسِ فَشَعَلُوْنِيْ عَنِ الرَّکْعَتَیْنِ الَّتَیْنِ بَعْدَ الظُّھْرِ فَھُمَا ھَاتَانِ﴾ [1]
’’اے ابو اُمیہ کی بیٹی!تم نے عصر کے بعد دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا ہے۔میرے پاس بنو عبد القیس کے کچھ لوگ آئے تھے تو انھوں نے مجھے ظہر کے بعد والی دو رکعتوں سے مشغول کر دیا تھا۔یہ دو رکعتیں(جو میں نے اب پڑھی ہیں) وہی تھیں۔‘‘
اس حدیث کا دو سرا طریق سنن نسائی اور مسند احمد میں ہے،جس کی سند کو بھی صحیح قرار دیا گیا ہے۔[2] اس طریقِ روایت میں بنو عبد القیس کے بجائے بنو تمیم ہے اور معانی الآثار طحاوی میں بھی بنو تمیم کی روایت ہے۔حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ بنو عبدالقیس ہی صحیح ہے اور بنو تمیم کی روایت غلط ہے۔[3]
اسی موضوع کی ایک حدیث صحیح بخاری و مسلم،سنن نسائی اور مسند احمد میں اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتی ہیں:
﴿رَکْعَتَانِ لَمْ یَکُنْ یَدَعُھُمَا سِرًّا وَلَا عَلَانِیَۃً رَکْعَتَانِ قَبْلَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ وَرَکْعَتَانِ بَعْدَ الْعَصْرِ﴾ [4]
’’دو رکعتیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم درپردہ اور علانیہ کسی طرح بھی نہیں چھوڑا کر تے تھے۔دو رکعتیں فجر کے فرضوں سے پہلے اور دورکعتیں نماز عصر کے بعد۔‘‘
بخاری شریف کی ایک روایت میں وہ فرماتی ہیں:
﴿وَکَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّیْھِمَا وَلَا یُصَلِّیْھِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَۃَ أَنْ یُثَقِّلَ عَلٰی أُمَّتِہٖ وَکَانَ یُحِبُّ مَا یُخَفِّفُ عَنْھُمْ﴾ [5]
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھا کر تے تھے،مگر مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے،تاکہ
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 63،3/ 105) صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 6/ 119۔121) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(1134) الإرواء(2/ 187) صحیح الجامع(3/ 6/ 686)
[2] إرواء الغلیل(2/ 188)
[3] فتح الباري(3/ 106)
[4] صحیح البخاري(2/ 64) صحیح مسلم(3/ 6/ 122) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(562) الإرواء(2/ 188۔189)
[5] حوالہ بالا