کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 551
’’مَا أُبَالِيْ لَوْ أُقِیْمَتْ صَلَاۃُ الصُّبْحِ وَأَنَا أُوْتِرُ‘‘[1]
’’میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ صبح کی اقامت ہو جائے،جب کہ میں وتر پڑھ رہا ہوں۔‘‘
یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’کَانَ عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ یَؤَمُّ قَوْمًا فَخَرَجَ یَوْمًا إِلٰی الصُّبْحِ فَأَقَامَ الْمُؤَذِّنُ صَلَاۃَ الصُّبْحِ فَأَسْکَتَہٗ عُبَادَۃُ حَتَّیٰ أَوْ تَرَ،ثُمَّ صَلّٰی بِھِمُ الصُّبْحَ‘‘[2]
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ قوم کی امامت کرواتے تھے۔ایک دن وہ فجر کے لیے آئے تو موذن نے اقامت کہہ دی۔حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے اسے خاموش کر دیا اور وتر پڑھے۔پھر صبح کی نماز پڑھا ئی۔‘‘
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے:
’’إِنَّ عَبَّاسٍ رَقَدَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ فَقَالَ لِخَادِمِہٖ: أُنْظُرْ مَا ذَا صَنَعَ النَّاسُ؟ وَھُوَ یَوْمَئِذٍ قَدْ ذَھَبَ بَصَرُہٗ،فَذَھَبَ الْخَادِمُ،ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: قَدِ انْصَرَف مِنَ الصُّبْحِ فَقَامَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَوْتَرَ ثُمَّ صَلَّی الصُّبْحَ‘‘[3]
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سو گئے اور پھر بیدار ہوئے،پھر انھوں نے اپنے خادم سے کہا کہ جاؤ دیکھو!لوگوں نے کیا کیا ہے؟ ان دنوں ان کی آنکھوں کی بصارت ختم ہوچکی تھی۔خادم گیا اور آکر اس نے بتایا کہ لوگ فجر کی نماز ادا کر چکے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اٹھے،انھوں نے پہلے نمازِ وتر پڑھی اور پھر نمازِ فجر ادا کی۔‘‘
ایسے ہی بعض مرفوع آثار بھی ہیں۔مثلاً سنن ابی داود،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد اور مستدرکِ حاکم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
﴿مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِیَہٗ فَلْیُوْتِرْ إِذَا ذَکَرَہٗ أَوْ إِذَا اسْتَیْقَظَ﴾ [4]
[1] حوالا بالا
[2] حوالا بالا۔
[3] حوالہ بالہ۔
[4] الفتح الرباني(2/ 312) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(1268) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(386) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(188) وقال حاکم صحیح علی شرط الشیخین وصححہ العراقي إسناد طریق أبي داود۔