کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 548
﴿لَا صَلَاۃَ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ[1] ’’طلوعِ فجر کے بعد فجر کی دو سنتوں کے سوا دوسری کوئی(غیر فرضی) نماز نہیں ہے۔‘‘ البتہ حضرت حسن بصری،امام شافعی اور ایک روایت میں امام احمد کے نزدیک یہ نہی بھی فجر کی نماز سے متعلق ہے،طلوعِ فجر سے نہیں۔[2] طلوعِ فجر یا اذانِ فجر کے بعد عام نوافل: ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ طلوعِ فجر یا اذانِ فجر کے بعد کی دوسنتوں اور دو فرضوں کے سوا دوسری کوئی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔اگر کوئی شخص حد سے تجاوز کرتے ہوئے اس وقت عام نماز پڑھنا شروع کر دے تو وہ ثواب کے بجائے عتاب و عذاب کو آواز دینے والا ہوگا۔چنانچہ سنن کبریٰ بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا،جو طلوعِ فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ بھی نوافل پڑھتا ہے اور اس نفلی نماز میں بکثرت رکوع و سجود کرتا ہے،تو انھوں نے اسے فعل سے منع کیا۔اس شخص نے کہا: اے ابو محمد: ’’یُعَذِّبُنِيَ اللّٰہُ عَلَی الصَّلَاۃِ؟‘‘ ’’کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا: ’’لَا وَلٰکِنْ یُعَذِّبُکَ عَلٰی خِلَافِ السُّنَّۃِ‘‘[3] ’’نہیں(نماز پڑھنے پر تو نہیں البتہ) سنت کی خلاف ورزی کرنے پر عذاب کرے گا۔‘‘ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بڑے فکر انگیز ہیں اور اگر کو ئی شخص انھیں اچھی طرح سمجھ کر ذہن نشین کرے تو پھر بدعات و خرافات پر کاربند لوگوں کے بکثرت اعمال کے سلسلے میں فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے،کیوں کہ اہلِ بدعت پہلے کسی عمل کو ایجاد کرتے ہیں،پھر اسے نماز اور ذکرِ الٰہی کے طور پر پیش کرکے اس کے جائز ہونے کا ڈنڈھورا پیٹنے لگتے ہیں۔ایسے تمام لوگوں کو
[1] قیام اللیل للمروزی(ص: 137) [2] دیکھیں: الإرواء(2/ 236) [3] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(444) صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 5/ 225۔226) و صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(442) صحیح الجامع،رقم الحدیث(460)