کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 533
بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دو دن تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔جب زوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم فرمایا۔پھر اقامت کا حکم فرمایا اور نمازِ ظہر پڑھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو عصر کی اقامت کا حکم فرمایا تو انھوں نے عصر کی اقامت کہی،جب کہ ابھی سورج بلند سفید(اور) صاف تھا۔(یعنی ابھی تک دھوپ میں زردی نہیں آئی تھی) جب سورج غروب ہوگیا تو ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مغرب کی اقامت کا حکم دیا اور پھر جب شفق(شام کی سرخی) غائب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامتِ عشا(نمازِ عشا کی تکبیر) کا حکم دیا۔(نماز پڑھی) اور پھر جب فجر(صبح صادق) طلوع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت(تکبیر) کہنے کا حکم فرمایا(نماز فجر پڑھی) جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نمازِ ظہر کو ٹھنڈا کرنے کا حکم فرمایا تو انھوں نے ظہر کو ٹھنڈا کیا،یعنی نمازِ ظہر خوب ٹھنڈے وقت میں پڑھائی۔پھر نمازِ عصر اس وقت پڑھی،جب کہ سورج بلند تھا،لیکن پہلے روز سے ڈھل چکا تھا(یعنی اس روز پہلے روز کی نسبت تاخیر کی) اور شام کی سرخی ہو جانے سے پہلے نمازِ مغرب پڑھی اور ایک تہائی رات گزر جانے کے بعد نمازِ عشا پڑھائی اور صبح کی نماز خوب روشنی پھیل جانے پر پڑھائی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازوں کے اوقات کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ تو اس شخص نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!میں موجود ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ تم نے دیکھا ہے،تمھاری نمازوں کا وقت اس کے درمیان ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿وَقْتُ الظُّھْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ،وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُوْلِہٖ مَا لَمْ یَحْضُرِ الْعَصْرُ،وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَالَمْ تَصْفَرِّ الشَّمْسُ،وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ یَغِبِ الشَّفَقُ،وَوَقْتُ صَلَاۃِ الْعِشَآئِ إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ الْأَوْسَطِ،وَوَقْتُ صَلَاۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ