کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 529
ہے،جب ایسے مقامات پر اندازے سے پانچوں نمازیں ادا کی جائیں۔ دوسری بات یہ کہ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی وہ روایت،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ظہور کے وقت ایسے دن کی پیشین گوئی کی ہے،جو ایک سال کے برابر ہوگا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اس میں ایک ہی دن کی نمازیں کافی ہو جائیں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اندازے سے نمازیں ادا کرو گے۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: ﴿قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم!فَذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِيْ کَسَنَۃٍ أَتَکْفِیْنَا فِیْہِ صَلَاۃُ یَوْمٍ؟ قَالَ: لَا،أُقْدُرُوْا لَہٗ قَدْرَہٗ[1] ’’ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!اس دن جو ایک سال کے مساوی ہوگا،کیا ایک دن کی نماز کافی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ اس دن نماز کے لیے اندازے سے کام لو۔‘‘ آگے موصوف لکھتے ہیں: ’’اس حدیث نے گویا اس مسئلے کو دو ٹوک حل کر دیا ہے۔‘‘ راقم الحروف کی رائے بھی یہی ہے کہ ایسے مقامات پر نمازیں اندازے سے ادا کی جائیں گی اور ہر چو بیس گھنٹے کو شب و روز تصور کرکے اوقاتِ نماز کے درمیان جو فاصلہ ہے،اس کا تناسب ملحوظ رکھتے ہوئے نمازیں پڑھی جائیں گی۔[2] شرح مسلم نووی میں اندازے سے کام لینے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فجر پڑھیں اور جب طلوعِ فجر اور ظہر کے درمیانی وقت کا عرصہ گزر گیا تو ظہر پڑھیں اور جب ظہر و عصر کے درمیانی وقت کے مطابق عرصہ گزر گیا تو عصر پڑھیں۔پھر عصر و مغرب کے درمیانی وقت کا عرصہ گزر گیا تو مغرب پڑھیں اور اسی طرح ہی عشا،پھر فجر،پھر ظہر،پھر عصر،پھر مغرب اور نمازوں کا یہ سلسلہ اسی طرح اندازے سے چلتا رہے گا،یہاں تک کہ وہ دن ختم نہ ہو جائے۔[3]
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي(9/ 18/ 65،66) صحیح سنن الترمذي للألباني(2/ 249) طبع مکتبہ التربیۃ لدولۃ الخلیج۔الریاض [2] جدید فقہی مسائل(ص: 40،41) [3] شرح صحیح مسلم للنووي(9/ 18/ 166،156)