کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 528
طویل الاوقات علاقوں میں نماز ان مقامات پر جہاں بعض نمازوں کا وقت ہی ملتا ہو،مثلاً آفتاب کے طلوع و غروب کے درمیان نصف گھنٹے کا فاصلہ رہتا ہو یا چھے ماہ مسلسل دن اور چھے ماہ مسلسل رات رہتی ہو۔وہاں ان نمازوں کا کیا حکم ہوگا،جن کا وقت ہی نہیں آیا؟(جیسے قطبین یا ان کے قریبی علاقے ہیں) اس سوال کا جواب مولانا سیف اللہ رحمانی(فاضل دیوبند) نے اپنی کتاب ’’جدید فقہی مسائل‘‘ میں یوں دیا ہے: اس سلسلے میں فقہاے احناف کی آرا مختلف ہیں۔یہ اختلاف دراصل اس پر مبنی ہے کہ نماز کے لیے وقت کی کیا حیثیت ہے؟ ایک جماعت کے نزدیک اس کی حیثیت شرط کی ہے اور شرط ہی مفقود ہو تو ظاہر ہے کہ وہ چیز واجب ہی نہیں ہوگی۔اس لیے وہ ایسے مقامات پر ان نمازوں کو ضروری ہی قرار نہیں دیتے جن کا وقت ہی نہیں آیا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وقت شرط نہیں ’’علامت‘‘ ہے اور ایک علامت کے نہ پائے جانے سے ضروری نہیں کہ وہ حکم ہی باقی نہ رہے۔ایک علامت کی جگہ دوسری علامت لے سکتی ہے۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ چاہے وقت نہ پایا جائے،نماز پھر بھی واجب ہوگی اور اندازے سے وقت متعین کرکے نماز ادا کی جائیں گی۔(فتح القدیر شرح ہدایۃ) حدیثِ اوّل: قرآن و حدیث میں عام طور پر نماز کے ساتھ جس طرح وقت کا ذکر کیا گیا ہے،اس سے وقت کی ان دونوں صورتوں میں کوئی ایک حیثیت غیر مبہم اور دو ٹوک طور پر سامنے نہیں آتی،مگر دو باتیں ایسی ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت کو علامت ہی کی حیثیت دینی چاہیے۔ان میں سے ایک یہ کہ نماز کی پانچ وقتوں کی فرضیّت بلا تخصیص تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔یہ عموم اسی وقت برقرار رہ سکتا