کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 527
﴿أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَسْتَحِبُّ أَنْ یُّؤَخِّرَ الْعِشَائَ الَّتِيْ یَدْعُوْنَہُ الْعَتَمَۃَ،وَکَانَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَھَا وَالْحَدِیْثَ بَعْدَھَا[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عشا جسے لوگ عتمہ بھی کہتے تھے،اسے موخر کرکے ادا فرمانا مستحب سمجھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشا سے پہلے سونے کو اور عشا کے بعد باتیں کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘ اس حدیث میں نمازِ عشا کے بعد فضول گوئی،قصہ خوانی اور فالتو باتوں کی ممانعت بھی آگئی ہے۔اس موضوع کی قدرے تفصیل بھی ہم بعد میں ذکر کر یں گے،لیکن سرِدست اس حدیث کا پہلا جز ہی ہمارا محلِ شاہد ہے،لہٰذا بیس تک پہنچنے والی ان تمام احادیث کی بنا پر اہلِ علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ نمازِ عشا کو موخر کر کے ادا کرنا افضل ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر عادتِ مبارکہ اول وقت میں نمازِ عشا ادا کرنے کو مشقت کے خیال پر محمول کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیں کہ نمازِ عشا کا موخر کرنا ہی افضل مان لیا جائے،تب بھی اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں لیا جا سکتا کہ کوئی شخص نمازِ باجماعت کو محض اس بنا پر نہ چھوڑ دیا کرے کہ میں نماز کو مؤخر کر کے ادا کروں گا،کیوں کہ اس طرح وہ ایک فضیلت کو حاصل کرنے کی فکر میں جماعت میں حاضری کے وجوب کا تارک اور بہت بڑے ثواب سے محروم ہو جائے گا۔
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(547) و صحیح مسلم مع النووي(3/ 5/ 135) و صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(516) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(385) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(142) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(701) المنتقی(1/ 2/ 13) نصب الرایۃ(1/ 248)