کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 526
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!نماز کے لیے تشریف لائیں،اب تو عورتیں اور بچے سوگئے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ اقدس سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ﴿إِنَّہُ الْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِيْ ’’اگر میں اپنی امت کے لیے اسے باعثِ مشقت نہ سمجھوں تو عشا کا یہی وقت ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ﴿لَوْ لاَ أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُھُمْ أَنْ لَّا یُصَلُّوْھَا إِلَّا ھٰکَذَا[1] ’’اگر یہ افرادِ امت کے لیے باعث مشقتِ نہ ہوتا تو میں انھیں حکم دے دیتا کہ وہ نمازِ عشا کو صرف اسی طرح ہی ادا کیا کریں۔‘‘ اسی مفہوم کی گیارھویں حدیث سنن ابو داود،ترمذی،بیہقی،معانی الآثار اور مسند احمد میں حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جسے امام ترمذی نے حسن صحیح قرار دیا ہے۔بارھویں حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے،تیرھویں حدیث مستدرک حاکم،مسند احمد اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جسے علامہ احمد شاکر نے صحیح قرار دیا ہے،ایسے ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے معانی الآثار طحاوی میں،حضرت زینب بنت حبیش رضی اللہ عنہا سے مسند احمد میں،حضرت عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ سے سنن ابو داود اور مستدرکِ حاکم میں اور ایک صحابی سے مسند احمد و معانی الآثار میں،حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے سنن ابو داود میں اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے زوائدِ مسند احمد میں بھی اسی معنیٰ و مفہوم کی حدیث مروی ہے۔[2] یہ تقریباً انیس حدیثیں ہیں اور بیسوں حدیث صحیحین و سنن اربعہ میں مروی ہے،جس میں حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(571) صحیح مسلم مع شرح النووي(3/ 5/ 141) صحیح سنن النسائي(1/ 117) [2] دیکھیں: نصب الرایۃ(1/ 46،248) التلخیص الحبیر(1/ 1/ 176) نیل الأوطار(1/ 2/ 10) الإرواء(1/ 108،111)