کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 522
﴿کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُؤَخِّرُوا الْعِشَآئَ الْآخِرَۃَ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عشا کو موخر کر کے ادا کیا کرتے تھے۔‘‘ دوسری حدیث سنن ترمذی و ابن ماجہ اور مسند احمد میں مروی ہے،جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُھُمْ أَنْ یُّؤَخِّرُوْا الْعِشَائَ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ أَوْ نِصْفِہٖ[2] ’’اگر میں اس بات کو اپنی امت کے لیے باعثِ مشقت نہ سمجھتا تو انھیں حکم دے دیتا کہ نمازِ عشا کو ایک تہائی یا نصف رات گزرنے تک موخر کیا کرو۔‘‘ اس مفہوم کی تیسری حدیث صحیح مسلم اور سنن نسائی میں مروی ہے،جس میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ﴿أَعْتَمَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ذَاتَ لَیْلَۃٍ حَتَّیٰ ذَھَبَ عَامَّۃُ اللَّیْلِ،وَحَتَّیٰ نَامَ أَھْلُ الْمَسْجِدِ،ثُمَّ خَرَجَ فَصَلّٰی،فَقَالَ: إِنَّہٗ لَوَقْتُھَا لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ[3] ’’ایک رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشا کو اتنا موخر کیا کہ کافی رات گزر گئی،حتیٰ کہ اہلِ مسجد سوگئے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،نمازِ عشا پڑھی اور فرمایا: اگر میں افرادِ امت کے لیے اس امر کو باعثِ مشقت نہ سمجھتا تو نمازِ عشا کا وقت تو یہی ہے۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ:((حَتَّیٰ ذَھَبَ عَامَّۃُ اللَّیْلِ کی شرح بیان کرتے ہوئے شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس تاخیر سے،جو ان احادیث میں مذکور ہے،ایسی تاخیر بھی مراد نہیں،جو وقتِ اختیار یعنی تہائی یا نصف رات سے بھی آگے گزر جائے۔بلکہ عامۃ اللّیل سے مراد اس کا کثیر حصہ گزر جانا ہے نہ کہ اکثر حصہ گزرنا اور اس تاویل کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں،کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے((إِنَّہُ لِوَقْتُھَا﴾ فرمایا ہے کہ یہ اس کا وقت ہے،جس سے اس نصف شب کے بعد کا حصہ ہرگز مراد نہیں ہو سکتا۔کیوں کہ علما میں سے آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ نصف رات کے بعد
[1] صحیح مسلم مع النووي(3/ 5/ 142) صحیح سنن النسائي(1/ 117) المنتقی(1/ 2/ 11) [2] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(691) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(141) مسند أحمد(2/ 250،433) المنتقی(1/ 1/ 11) [3] مختصر صحیح مسلم،رقم الحدیث(224) المنتقی مع النیل(1/ 2/ 12) صحیح سنن النسائي(1/ 118)