کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 516
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(دوسرے دن) نمازِ عشا کو اتنا موخر کیا کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا تو نماز پڑھی۔‘‘ ان احادیث میں سے بعض میں نصف اور بعض میں ثلث کا ذکر ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں ان کے مابین تطبیق یوں دی ہے کہ ایک رات گزرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشا کا آغاز کیا اور آدھی رات پر جاکر ختم کی،لہٰذا دونوں طرح کی احادیث میں کوئی اختلاف نہ رہا،نیز ان کا کہنا ہے کہ صحیح تر قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نمازِ عشا کا وقتِ اختیار نصف شب تک ہی رہتا ہے۔[1] پھر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ والی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ نصف رات تک تو نمازِ عشا کا وقتِ اختیار رہے،جب کہ وقتِ جواز طلوعِ فجر ثانی(یا طلوعِ صبح صادق) تک رہتا ہے،کیوں کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ’’صحیح مسلم،باب من نسي صلاۃً أو نام‘‘ کی حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّہٗ لَیْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِیْطٌ،إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ عَلٰی مَنْ لَّمْ یُصَلِّ الصَّلَاۃَ حَتَّیٰ یَجِیْئَ وَقْتُ الصَّلَاۃِ الْأُخْرَیٰ[2] نیند میں تقصیر اور گناہ نہیں ہے،گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اگلی نماز کا وقت ہو جانے تک کوئی نماز ہی ادا نہ کرے۔‘‘ یہ الفاظ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سارا لشکر نمازِ فجر سے سوئے رہ گئے تھے اور صبح سورج کی گرمی نے سب کو اُٹھایا تھا۔یاد رہے کہ یہ حدیث سنن اربعہ اور مسند احمد میں بھی ہے،مگر اس میں اگلی نماز تک کسی نماز کو نہ پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے الفاظ:((حَتَّیٰ یَجِیْئَ وَقْتُ الصَّلَاۃِ الْأُخْریٰ )) کی رُوسے جمہور علما کا مسلک یہ ہے کہ فجر تک عشا کا وقت رہتا ہے،جب کہ بعض اہلِ علم و تحقیق نے کہا ہے کہ نصف شب گزرنے کے بعد نماز ادا نہیں،بلکہ قضا ہوگی۔[3] فتح الباری شرح صحیح بخاری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی کی یہی بات نقل کی ہے اور
[1] شرح صحیح مسلم للنووي(3/ 5/ 116،117) [2] شرح صحیح مسلم(3/ 5/ 111) المرعاۃ(2/ 45) [3] دیکھیں: المشکاۃ مع المرعاۃ(2/ 22،45)