کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 509
کی شدید جرح بھی نقل کی ہے،لہٰذا وہ قابلِ حجت نہ ہوئی۔[1] امام محمد رحمہ اللہ نے موطا میں لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک عصر کو موخر کرکے پڑھنا جلدی پڑھنے سے افضل ہے،جب کہ سورج ابھی سفید و شفاف ہو اور اس میں زردی دا خل نہ ہوئی ہو۔عام آثار میں یہی آیا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔صاحبِ ہدایہ وغیرہ نے اس تاخیر کے افضل ہونے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس طرح نوافل زیادہ پڑھے جا سکتے ہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ کے ان الفاظ اور اس وجہ پر تعاقب کرتے ہوئے علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ ’’التعلیق الممجد علیٰ موطأ الإمام محمد ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ صحاح ستہ اور دیگر کتبِ حدیث میں ایسی احادیث مروی ہیں،جو نمازِ عصر کو جلد ادا کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ مذکورہ وجہ یا علّت صحیح نصوص کے مقابلے میں(ان کے خلاف) ہے۔ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے ’’البنایۃ شرح الہدایۃ‘‘ میں عصر کو تاخیر سے پڑھنے کی فضیلت پر چار روایات سے استدلال کیا ہے،جن میں سے ایک تو یہی ہے،جس کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور دوسری حدیث سنن ابو داود میں ہے،جس میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ مدینے میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر سے نمازِ عصر پڑھتے تھے،جب کہ اس حدیث کے ایک راوی یزید کو التقریب،الخلاصہ اور میزان الاعتدال میں مجہول کہا گیا ہے،لہٰذا یہ حدیث ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہے۔[2] تیسری حدیث سنن ترمذی میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔[3] چوتھی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔علامہ عبد الحی حنفی رحمہ اللہ نے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں ان دونوں یعنی تیسری اور چوتھی حدیث کو بھی تاخیرِ عصر کی افضلیت کی دلیل ہونے میں صریح قرار نہیں دیا اور صحیح و صریح احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کو جلد پڑھنا ثابت ہے۔ایسے ہی بعض دیگر روایات و آثار بھی ہیں،جو یا صحیح نہیں یا صریح نہیں۔جس کی تفصیل ’’التعلیق الممجد‘‘ یا ’’تحفۃ الأحوذي‘‘(1/ 494،502) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
[1] تحفۃ الأحوذي(1/ 495) [2] دیکھیں: تحفۃ الأحوذي(1/ 495) [3] سنن الترمذي مع التحفۃ(1/ 498)