کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 507
2۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بعض احادیث کو راجح اور بعض دوسری احادیث کو مرجوح قرار دیا جائے،لیکن اس کی بھی یہاں ضرورت نہیں،بلکہ اس سے بھی اولیٰ یہ ہے کہ ان احادیث میں مطابقت پیداکی جائے۔ 3۔ اور یہ تیسری شکل ممکن بھی ہے،بلکہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں اور وہ یوں ہے کہ حدیث جبرائیل جس میں عصر کا وقت کسی چیز کا سایہ ایک مثل ہو جانے سے لے کر دو مثل ہو جانے تک بیان ہوا ہے،اس میں صرف ’’وقتِ اختیار‘‘ کا ذکر آیا ہے۔اس حدیث میں ’’وقتِ جواز‘‘ اور ’’وقتِ اضطرار‘‘ یا مجبوری سب کا استیعاب نہیں کیا گیا،اس جمع و تطبیق کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں آخری وقت کی نماز کو منافق کی نماز کہا گیا ہے،جب کہ وہ معذور و مجبور نہ ہو،لیکن معذوری اور مجبوری والے کی نماز ایک رکعت پڑھ سکے تو گویا جو شخص معذور و محبور ہو،اس کے لیے تو نمازِ عصر کا وقت اس حد تک ہے اور ایسا نہیں،اس کے لیے وقت صرف کسی چیز کے سائے کے دو مثل ہو جانے تک ہی ہے،جب کہ سورج ابھی سفید اور شفاف ہو اور اگر وہ بلا عذر ہی اسے سورج کے زرد ہونے تک یا اس سے بھی بعد تک موخر کر دے گا،تو پھر وہ منافق کی نماز ہو جائے گی۔[1] اسی قسم کی مطابقت امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم شریف کی شرح میں بھی ذکر کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک نمازِ عصر کے پانچ اوقات ہیں: 1۔ وقتِ فضیلت،جو نماز عصر کا اوّل وقت ہے۔ 2۔ وقتِ اختیار،جو کسی چیز کا سایہ دوگنا ہو جانے تک ہے۔ 3۔ وقتِ جواز بلا کراہت،جو سورج کے زرد پڑ جانے سے پہلے پہلے تک ہے۔ 4۔ جواز مع الکراہۃ،جو سورج زرد پڑ جانے سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ 5۔ وقتِ عذر،یہ وقت اس شخص کے لیے ہے جو سفر یا بارش کے عذر کی بیان پر نمازِ ظہر و عصر کو جمع کرکے ادا کرنا چاہے۔(جب کہ جمع تقدیم ہوگی کہ نمازِ عصر کو مقدم کرکے،یعنی اس کے وقت سے پہلے نمازِ ظہر کے ساتھ اسی کے وقت میں اسے ادا کیا جائے)۔
[1] نیل الأوطار(1/ 1/ 306)