کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 504
یاد رہے کہ ان احادیث میں جو ایک سجدہ پا لینے کا ذکر ہے،اس سے مراد ایک رکعت ہے،جیسا کہ ’’المنتقی‘‘ میں علامہ المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے اور علامہ خطابی رحمہ اللہ نے ’’معالم السنن‘‘ میں لکھا ہے کہ سجدے سے مراد رکوع و سجود سمیت پوری رکعت ہے اور ایک رکعت مکمّل ہی دوسرے سجدے سے ہوتی ہے۔لہٰذا رکعت کو سجدہ کہا گیا ہے۔[1] یاد رہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت نمازِ عصر ادا کرنا محض مجبوری کی شکل میں ہے،ورنہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل ہے کہ جان بوجھ کراس وقت نماز موخر کرنا جائز نہیں ہے۔[2] بلکہ بلا عذر و مجبوری نمازِ عصر کو غروبِ آفتاب کے قریب تک موخر کرنا منافق کی نماز شمار کیا گیا ہے،جیسا کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،موطا امام مالک اور مسندِ احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ﴿تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ حَتَّیٰ إِذَا کَانَتِ الشَّمْسُ بَیْنَ قَرْنَيِ الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرْ أَرْبَعاً لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْھَا إِلَّا قَلِیْلًا[3] ’’یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا رہے اور سورج کا انتظار کرتا رہے۔یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے مابین(ڈوبنے کے قریب) ہوتا ہے تو وہ اٹھتا ہے اور چار ٹھونگے مار لیتا ہے اور کم ہی اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلا عذر غروبِ آفتاب کے قریب تک نماز کو موخر کرنا مکروہ ہے اور ایسی نماز کو منافق کی نماز کہا گیا ہے،کیوں کہ وہ خشوع،خضوع اور سکون و اطمینان سے خالی نماز ادا کرے گا،جس میں مناسب ذکر الٰہی بھی نہیں کر پائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ایسے آدمی کی مذمّت آئی ہے۔ نمازِ عصر کو جلدی اداکرنا: نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر بہت جلدی ادا فرمایا کرتے تھے۔
[1] فتح الباري(2/ 38) المنتقی(1/ 2/ 22) [2] شرح صحیح مسلم للنووي(3/ 5/ 106) المنتقیٰ أیضاً(ص: 308،22) [3] صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(137) و صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(497) صحیح مسلم(53/ 3/ 12) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(399) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(137) المغني(2/ 16) المنتقی مع النیل(1/ 1/ 307)