کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 502
صحیح بخاری و مسلم،صحیح ابی عوانہ،سنن ترمذی،نسائی،بیہقی،دارمی،مسندِ احمد،موطا امام مالک اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿وَمَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مِّنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبُ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَ الْعَصْرَ[1] ’’اور جس نے غروبِ آفتاب سے پہلے نمازِ عصر کی ایک رکعت بھی پڑھ لی،اس نے عصر کی نماز پالی۔‘‘ صحیح بخاری میں ارشادِ نبوی کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِذَا أَدْرَکَ أَحَدُکُمْ سَجْدَۃً مِّنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْیُتِمَّ صَلَاتَہٗ[2] ’’جس نے غروبِ آفتاب سے پہلے ایک سجدہ بھی کر لیا،پس اسے چاہیے کہ اب اپنی نماز پوری کر لے۔‘‘ جب کہ صحیح مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ،مسند احمد،منتقیٰ ابن الجارود،سنن بیہقی اور معانی الآثار میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک حدیث اسی مفہوم کی مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی ہے: ﴿مَنْ أَدْرَکَ مِنَ الْعَصْرِ سَجَدَۃً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَوْ مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَکَھَا[3] ’’جس نے غروبِ آفتاب سے پہلے نمازِ عصر کا ایک سجدہ یا طلوعِ آفتاب سے پہلے نمازِ فجر کا ایک سجدہ کر لیا تو اس نے نماز کو پا لیا۔ ان الفاظ کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا ظاہری معنیٰ مراد نہیں اور اس پر پوری امت کے علما کا اتفاق ہے کہ ایک رکعت کو پانے والا پوری نماز کو پانے والا نہیں کہ اسے صرف ایک ہی رکعت سے پوری نماز ملی جائے اور وہی ایک رکعت اسے کافی ہو،ایسا ہر گز نہیں،بلکہ یہاں
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(579) صحیح مسلم مع شرح النووي(2/ 5/ 104،105) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(347) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(503) و سنن الدارمي،رقم الحدیث(1222) مشکاۃ المصابیح(1/ 19) المنتقیٰ مع النیل(1/ 2/ 24) الإرواء(1/ 273) [2] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 56) [3] مصنف ابن أبي شیبۃ بحوالہ إرواء الغلیل(1/ 279)