کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 497
﴿إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ فَإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ﴾ [1]
’’جب گرمی شدید ہو جائے تو نمازِ ظہر کو دوپہر کے ٹھنڈے ہو جانے پر ادا کرو،کیوں کہ گرمی کی یہ شدت جہنم کے(باہر کو) سانس نکالنے سے ہوتی ہے۔‘‘
صحیح بخاری شریف ہی میں اس مفہوم کی ایک حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جس میں فرمانِ نبوی:
﴿اَبْرِدُوا بِالظُّھْرِ فَإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فِیْحِ جَھَنَّمَ﴾
’’نمازِ ظہر کو ٹھنڈاکرکے پڑھو،کیوں کہ گرمی کی یہ شدت جہنم کے سانس لینے سے ہے۔‘‘
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مردی ہے کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔موذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿أَبْرِدْ أَبْرِدْ﴾ أَوْ قَالَ:﴿اِنْتَظِرْ اِنْتَظِرْ﴾
’’ٹھنڈا کرو۔‘‘ یا فرمایا: ’’انتظا ر کرو،یعنی گرمی کم ہونے دو۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہی حکم فرمایا:
﴿حَتَّیٰ رَأَیْنَا فَیَٔ التُّلُوْلِ﴾ ’’یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ ٹیلوں کا سایہ نظر آنے لگا ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے سے ہے،لہٰذا جب گرمی شدید ہو جائے تو نمازِ ظہر کو ذرا ٹھنڈا کر لیا کرو،یعنی وقت سے ذرا موخر کر لیا کرو۔[2] یہاں ٹھنڈا کرنے کا مطلب کچھ تاخیر کرنا ہے،مگر اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ نماز کو اتنا موخر کر دیا جائے کہ اس پر عصر کا گمان ہونے لگے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’فتح الباري شرح صحیح البخاري‘‘ میں ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کی حدود کے بارے میں ائمہ و علما کے مختلف اقوال ذکر کیے ہیں:
٭ کسی نے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسی چیز کا سایہ اس کے ذاتی سائے کے علاوہ ایک ہاتھ ہو جائے۔
٭ کسی نے قدکا چوتھائی۔
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 15)
[2] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 18،20)