کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد1) - صفحہ 496
سے مروی حدیث میں پہلے دن کی نمازِ ظہر کے بارے میں مروی ہے: ﴿فَصَلَّی الظُّھْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر اس وقت پڑھی،جب کہ سورج سر سے ڈھل گیا۔‘‘ دوسرے دن کی نماز کے بارے میں مروی ہے: ﴿فَصَلَّی الظُّھْرَ حِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْیٍٔ مِثْلَہٗ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اس وقت پڑھی،جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے مثل یعنی اس کے برابر ہوگیا تھا۔‘‘ عام حالات میں نمازِ ظہر ہو یا دیگر نمازیں،ان سب کا اوّل وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ﴿أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلٰی اللّٰہِ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟‘‘ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا[1] ’’نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔‘‘ یہ تو عام حالات کا حکم ہے،البتہ شدید گرمی کے موسم میں نمازِ ظہر کو تھوڑی تاخیر کرکے ادا کرنا مستحب ہے،کیوں کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا اشتَدَّ الْبَرْدُ،بَکَّرَ بِالصَّلَاۃِ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاۃِ[2] ’’جب سردی بہت سخت ہو جاتی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر جلدی پڑھ لیتے اور جب گرمی شدید ہو جاتی تو نمازِ ظہر کو تھوڑی ٹھنڈی کرکے ادا فرماتے تھے۔‘‘ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم دونوں سے مروی ارشادِ نبوی ہے:
[1] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(527) صحیح مسلم مع شرح النووي(1/ 2/ 73،74) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(411) و لکن عن أم فروۃ۔صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(145) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(594) نیل الأوطار(1/ 304) السلسلۃ الصحیحۃ،رقم الحدیث(1489) [2] صحیح البخاري مع الفتح،رقم الحدیث(33۔534)